سوال
خُدا نے فرعون کے دل کو سخت کیوں کیا؟
جواب
خروج 7باب 3-4آیات بیان کرتی ہیں "اور مَیں فرعون کے دِل کو سخت کرُوں گا اور اپنے نشان اور عجائب مُلکِ مصر میں کثرت سے دِکھاؤں گا۔ تو بھی فرعون تمہاری نہ سُنے گا۔ تب مَیں مصر کو ہاتھ لگاؤں گا اور اُسے بڑی بڑی سزائیں دے کر اپنے لوگوں بنی اسرائیل کے جتھوں کو مُلکِ مصر سے نکال لاؤں گا"۔ خُدا کا فرعون کے دِل کو سخت کرنا اور پھر اُس کی سخت دِلی میں کیے گئے فیصلوں کے باعث اُسے اور مصر کو سزا دینا غیر منصفانہ لگتا ہے۔ کیا خُدا اِس لئے فرعون کے دِل کو سخت کر رہا تھا کہ مزید آفتوں کے ذریعے مصر کی عدالت اور زیادہ سختی سے کر سکے؟
پہلی بات یہ ہے کہ فرعون ایک بے گناہ یا خُدا پرست انسان نہیں تھا۔ وہ ایک ظالم آمر تھا جواُن اسرائیلیوں پر ظلم کرتا اور اُن کے ساتھ بدترین سلوک کر رہا تھا جن کی تعداد اُس وقت پندرہ لاکھ سے زیادہ تھی۔ مصر کے فرعونوں نے 400 سالوں سے اسرائیلیوں کو غلام بنا رکھا تھا۔ ایک سابقہ فرعون یا ممکنہ طور پر اُسی فرعون نے جس کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے یہ حکم صادر کیا تھا کہ اسرائیلیوں کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیا جائے (خروج1باب 16آیت )۔ جس فرعون کے دِل کو خُدا نے سخت کیا وہ ایک بد انسان تھا اور جس قوم پر وہ حکومت کر رہا تھا وہ بھی اُس کے ساتھ متفق تھی یا کم از کم اُس کے بُرے کاموں کی مخالفت نہیں کرتی تھی۔
دوسری بات یہ کہ کم از کم دو ایسے واقعات ہیں جب فرعون نے خود اپنے دل کو سخت کیا تھا تاکہ وہ اسرائیل کو جانے نہ دے"پر جب فرعون نے دیکھا کہ چھٹکارا مِل گیا تو اُس نے اپنا دِل سخت کر لیا اور جیسا خُداوند نے کہہ دیا تھا اُن کی نہ سُنی"(خروج8باب 15آیت )۔ "پر فرعون نے اِس بار بھی اپنا دِل سخت کر لیا اور اُن لوگوں کو جانے نہ دیا"(خروج 8 باب 32آیت )۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک طرح سے خُدا اور فرعون دونوں ہی اُس کے دل کو سخت کرنے میں سرگرم تھے۔ جب تک آفتیں جاری رہیں خُدا نے آنے والی حتمی عدالت کے بارےمیں سختی سے فرعون کو متبنہ کر دیا تھا ۔ یہ فرعون خود تھا جس نے خُدا کے احکامات کے خلاف اپنے دِل کو سخت کرنے کے باعث اپنے اور اپنی قوم کے اُوپر مزید سزائیں لانے کا فیصلہ کیا تھا ۔
ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ فرعون کے دِل کی سختی کے نتیجے میں خدا نے اُس کے دل کو اور زیادہ سخت کر دیا ہو تاکہ چند آخری آفتوں کے نزول کے ذریعے وہ اپنے مکمل جلال کا اظہارکر سکے (خروج 9باب 12آیت ؛ 10باب 20اور 27آیت )۔ فرعون اور ملک مصر اسرائیلیوں کو 400 سال تک غلام بنائے رکھنے اور بڑی تعداد میں قتل وغارت کرنے کی وجہ سے اس عدالت کو اپنے اوپر لائے تھے۔ اور چونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے (رومیوں 6باب 23 آیت) اور فرعون اور ملک ِ مصر نے خُدا کے خلاف سخت گناہ کیا تھا اِس صورت میں اگر خُدا مصر کو مکمل طور پر نیست ونابُود بھی کر دیتا تو یہ جائز ہوتا۔ لہذا خُدا کا فرعون کے دِل کو سخت کرنا غیر منصفانہ نہیں تھا اور اُس کا مصر پر مزید آفتیں نازل کرنا بھی غیر واجب نہیں تھا۔ آفتیں جس قدربھی بھیانک تھیں وہ پھر بھی درحقیقت خدا کی رحمت کا اظہار کررہیں تھیں کیونکہ اُنہوں نے مصر کو مکمل طور پر تباہ نہیں کیا تھا جو کہ مکمل طور پر درست سزا ہوتی۔
رومیوں 9باب 17-18آیات بیان کرتی ہیں"کیونکہ کتابِ مقدس میں فرعون سے کہا گیا ہے کہ مَیں نے اِسی لئے تجھے کھڑا کیا ہے کہ تیری وجہ سے اپنی قُدرت ظاہر کرُوں اور میرا نام تمام رُویِ زمین پر مشہور ہو۔ پس وہ جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اُسے سخت کر دیتا ہے"۔ انسانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو خُدا کا کسی انسان کے دِل کو سخت کرنا اور پھر اُس کی سخت دِلی کی وجہ سے اُسے سزا دینا غلط لگتا ہے۔ تاہم اگر بائبل کے لحاظ سے بات کی جائے تو ہم سب نے خُدا کے خلاف گناہ کیا ہے (رومیوں3باب 23آیت ) اور اِس گناہ کی درُست سزا موت ہی ہے (رومیوں6باب 23آیت )۔ اِس لئے خُدا کا کسی انسان کے دل کو سخت کرنا اور پھر اُسے سزا دینا غیر مناسب نہیں ہےبلکہ اُس سزا کے مقابلے میں یہ خدا کی مہربانی ہے جس کا وہ انسا ن اصل میں حقدار ہے ۔
English
خُدا نے فرعون کے دل کو سخت کیوں کیا؟