سوال
فلسفیانہ علمِ الٰہیات کیا ہے؟
جواب
فلسفیانہ علم ِ الٰہیات بھی علمِ الٰہیات کی ایک شاخ ہے جس میں الٰہی سچائیوں کی واضح تفہیم تک پہنچنے کے لیے فلسفیانہ طریقوں کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے بحث پائی جاتی ہے کہ آیا علم ِ الٰہیات اور فلسفے دونوں کو ہی انسان کی طرف سے سچائی تک پہنچنے کی کوشش میں شامل کیا جانا چاہیے یا نہیں، اور یا پھر کیا الہام ِالٰہی اپنے طور پر قائم رہ سکتا یا اِسے قائم رہنا چاہیے۔ صدیوں سے کئی مختلف نظریات موجود رہے ہیں کہ فلسفیانہ نظاموں کا الٰہیاتی تصورات پر کس حد تک اطلاق کیا جانا چاہیے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ دونوں کو بالکل الگ الگ ہونا چاہیے یعنی اِن کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر انسان کو الہام ِالٰہی کو درست طور پر سمجھنا ہے تو فلسفہ اور منطق ضروری ہیں ۔ اس کے باوجود کچھ لوگ معتدل انداز اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ فلسفہ ایک مفید آلہ ہے لیکن اس پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
فلسفیانہ علم ِ الٰہیات اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں اس وقت وجود میں آیا جب عقلیت پسند، جدیدیت پسند اور روشن خیال مفکرین نے مسیحیت پر حملہ کیا۔ ماہرینِ علمِ الٰہیات اپنے عقائد کی وضاحت اور دفاع کے لیے ایک طریقہ چاہتے تھے اور انہوں نے پایا کہ وہ الہامِ الٰہی کے دفاع کے لیے فلسفیانہ طریقوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔ علمِ الٰہیات کا تجزیے اوروضاحت کے لیے فلسفے کا استعمال کرنا منفرد تھا۔ تھامس ایکوائنس، اگسٹِن اور دیگر ابتدائی ماہرینِ علم الٰہیات نے اپنی تحریروں میں ارسطو اور سقراط کے نظریات کو بائبل میں پیش کیے گئے تصورات کے بارے میں غورو خوص کرنے اور سمجھنے کی کوشش میں استعمال کیا تھا۔ بہت سے جدید اپولوجسٹ اب بھی فلسفیانہ دلائل استعمال کرتے ہیں؛ مثال کے طور پر خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کئے جانے والے ٹیلیولوجیکل اور آنٹولوجیکل دلائل گہرے طور پر فلسفیانہ علم ِ الٰہیات پر مبنی ہیں۔
بائبل فرماتی ہے کہ کسی ایسے معاملے کی کھوج کرنایا کسی ایسی سچائی کی تلاش کرنا جسے خدا نے چھپا رکھا ہے ایک شاندار عمل ہے (امثال 25باب 2 آیت)۔ ہمیں استدلال کی صلاحیت سے نوازہ گیا ہے اور فلسفے کا مطالعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔ فلسفے کا مطالعہ کرنے میں بہت سے رُوحانی خطرات بھی پائے جاتے ہیں۔ خُدا ہمیں خبردار کرتا ہے کہ" جس عِلم کو عِلم کہنا ہی غلط ہے اُس کی بے ہُودہ بکواس اور مخالِفت پر توجُّہ نہ کر "( 1تیمتھیس 6باب 20آیت)۔ انسان کے بنائے ہوئے نظریات اور انسانی قیاس آرائیاں خُدا کے اُس کلام کی اہمیت میں کچھ اضافہ نہیں کر سکتیں جو ہمیں " ہر ایک نیک کام "کے لئے تیّار کرنے کے لیے بالکل کافی ہے (2 تیمتھیس 3باب 16-17آیات)۔ ایوب اور اس کے تین دوستوں نے انسانی استدلال کے ذریعے خدا کے طریقوں کو سمجھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ آخر میں خُدا نے اُنہیں بتایا کہ وہ " نادانی کی باتوں " (ایوب 38باب 2آیت) سے الہام کو چھپا رہے ہیں۔
فلسفیانہ علم ِ الٰہیات ایک ایسا آلہ ہے جسے درست یا غلط طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ تحریک اور ترجیح کا معاملہ ہے: اگر ہم انسان کے بنائے ہوئے تصورات پر انحصار کرتے ہوئے خدا کے طریقوں اور خیالات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو یقیناً ہمیں مایوسی ہی ہوگی۔ بابل کے بُرج کے وقت سے ہی انسان خدا تک پہنچنے کی اپنی صلاحیت کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اگر ہم محبت اور خُدا کو جاننے کی خواہش سے متحرک اپنے دماغ کو اُس کے کلام کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ہمارا مطالعہ کرنا فائدہ مند ثابت ہو گا۔ فلسفہ بذات خود سچائی نہیں ہے بلکہ سچائی کے تابع ہے۔ فلسفہ سچائی کو بہتر طور پر سمجھنے کا ایک آلہ ہو سکتا ہے۔ خدا کا الہامی اور لاخطا کلام سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے؛ کسی بھی انسانی فلسفے کو ثانوی درجے پر ہونا چاہیے۔ ہمارے فلسفوں کا منصف بائبل ہے نہ کہ اس کے برعکس (دیکھیں عبرانیوں 4باب 12آیت)۔
English
فلسفیانہ علمِ الٰہیات کیا ہے؟