سوال
خُدا نے بائبل میں کثرتِ ازدواج کی اجازت کیوں دی؟
جواب
کثرتِ ازدواج کا سوال اِس وجہ سے دلچسپ ہے کیونکہ آج بہت سے لوگ کثرتِ ازدواج کو غیر اخلاقی تصور کرتے ہیں، جبکہ بائبل کہیں بھی واضح طور پر اِس کی مذمت نہیں کرتی۔ بائبل میں کثرتِ ازدواج کا پہلا واقعہ پیدائش4 باب 19آیت میں پایا جاتا ہے جس کا تعلق لمک کے ساتھ ہے "اور لمک دو عورتیں بیاہ لایا"۔ پرانے عہد نامے میں کئی ممتاز شخصیات نے ایک سے زیادہ شادیاں کی تھیں جیسے کہ ابرہام، یعقوب، داؤد، سلیمان اور بہت سے اور اشخاص کثیر بیویاں رکھتے تھے۔ 1سلاطین 11باب 3آیت کے مطابق سلیمان کی 700بیویاں اور 300 حُرمیں(کم حیثیت رکھنے والی بیویاں)تھیں۔ ہمیں پرانے عہد نامہ میں کثرتِ ازدواج کے اِن واقعات کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟اِس حوالے سے ہمارے سامنے تین سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کے جوابات دینے کی ضرورت ہے۔ (1) خُدا نے پرانے عہد نامے میں کثرتِ ازدواج کی اجازت کیوں دی تھی؟ (2) خُدا آج کثرتِ ازدواج کو کس طرح دیکھتا ہے؟ (3) کثرتِ ازدواج کے بارے میں نظریہ تبدیل کیوں ہوا؟
(1) خُدا نے پرانے عہد نامے میں کثرتِ ازدواج کی اجازت کیوں دی تھی ؟ بائبل واضح طور پر بیان نہیں کرتی کہ خُدا نے کثرتِ ازدواج کی اجازت کیوں دی ۔ جب ہم اِس حوالے سے خُدا کی خاموشی کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے سامنے ایک اہم نکتہ آتا ہے جو غور طلب ہے۔ بائبلی بزرگان کے دور میں اُن کے معاشرے کے اندر ایک غیر شادی شُدہ عورت کے لئے اپنی ضروریات کو خود سے پورا کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ عورتیں اکثر غیر تعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ ہوتیں ۔ عورتیں اپنی ضروریات اور تحفظ کے لئے باپ، بھائیوں ، اور شوہروں پر انحصار کرتیں۔ غیر شادی شُدہ خواتین کو اکثر طوائف یا لونڈی/ غلام بنا لیا جاتا تھا۔
پس ایسا لگتا ہے کہ خُدا نے شاید کثرتِ ازدواج کی اجازت اُن عورتوں کے تحفظ اور ضروریات کی فراہمی کے لئے دی تھی جن کو کوئی اور شوہر نہیں مل رہا تھا۔ ایک مرد زیادہ بیویاں رکھتا تھا اور اُن کی سبھی ضروریات فراہم کرتے ہوئے محافظ کے طور پر اُن سب کا خیال رکھتا تھا۔ اگرچہ یہ کوئی بہت اچھی اور مثالی بات تو نہیں تھی پھر بھی کثیر ازدواجی گھرانے میں رہنا دوسری صورتحال کا شکار ہونے، جیسے کہ عصمت فروشی ، غلامی، یا فاقہ کشی سےقدرے بہتر تھا۔ تحفظ/ضروریات کی فراہمی کے علاوہ، کثرتِ ازدواج خُدا کے حکم "اور تُم باروَر ہو اور بڑھو اور زمین پر خوب اپنی نسل بڑھاؤ اور بہت زیادہ ہو جاؤ" (پیدائش 9باب 7آیت) کو پورا کرتے ہوئے انسانیت کی تیزی سے توسیع کا سبب بنی ۔مرد ایک ہی وقت میں بہت سی عورتوں کو حاملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،اور اِس سے انسان تیزی سے بڑھ سکتے ہیں، بجائے اِس کے کہ ہر شخص ہر سال ایک ہی بچہ پیدا کرے۔
(2) دوسرا سوال ہے کہ خُدا آج کثرتِ ازدواج کو کس طرح دیکھتا ہے؟ اگرچہ کثرتِ ازدواج کی اجازت دی گئی تھی، لیکن بائبل ایک بیوی رکھنے کو ایسے منصوبہ کے طور پر پیش کرتی ہے ، جو شادی کے لئے خُدا کے مثالی اِرادےکی زیادہ قریب سے تصدیق کرتا ہے۔ بائبل فرماتی ہے کہ ایک مرد کے لئے خُدا کا اصل اِرادہ ایک عورت سے شادی کرنے کا تھا، "اِس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی (نہ کہ بیویوں) سے مِلا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے"(پیدائش 2باب 24 آیت)۔ اگرچہ پیدائش 2باب 24 آیت یہ بیان نہیں کر رہی کہ شادی کتنے افراد کے درمیان ہونی چاہیے لیکن یہاں پر بار بار واحد صیغے کا استعمال غور طلب ہے۔ اِستثنا 17باب 14- 20آیات میں خُدا فرماتا ہے کہ اسرائیلی بادشاہوں کو نہ تو زیادہ گھوڑے اور سونا چاندی جمع کرنا چاہیے اور نہ ہی زیادہ بیویاں کرنی چاہییں۔ اگرچہ اِس حوالے کی تشریح حکم کے طور پر نہیں کی جا سکتی کہ بادشاہوں کو ایک بیوی کا ہی شوہر ہونا چاہیے، اِسے اعلان کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ زیادہ بیویاں رکھنے سے بہت سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ بات سلیمان بادشاہ کی زندگی میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے (1سلاطین11 باب 3-4 آیات)۔
نئے عہد نامے میں1 تیمتھیس 3باب 2، 12 آیات اور ططس 1باب 6 آیت میں ایک رُوحانی رہنما کی قابلیت یا ضروری خصوصیات میں "ایک بیوی کا شوہر ہونا" شرط کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔اِس اہلیت کا بنیادی طور پر مطلب کیا ہےاِس حوالے سے یہ بات کئی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اِس فقرے کا لفظی طور پر ترجمہ صرف "ایک بیوی کا شوہر" ہی ہو سکتا ہے۔کیا یہ فقرہ کثرتِ ازدواج کی طرف اشارہ کر رہا ہے یا نہیں، اِس کا بخوبی اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کثیر ازدواج شخص یعنی ایک سے زیادہ بیویوں کا شوہر کسی بھی صورت میں"ایک بیوی کا شوہر" نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگرچہ قابلیت کی یہ شرائظ خاص طور پر رُوحانی قیادت کے عہدے کے لئے ہیں، لیکن اِن کا اطلاق یکساں طور پر تمام مسیحیوں پر ہونا چاہیے۔ کیا تمام مسیحیوں کو "بے الزام، پرہیزگار، مُتقی، شائستہ، مسافر پرور، تعلیم دینے کے لائق، نشہ میں غُل مچانے والا یا مار پیٹ کرنے والا نہیں بلکہ حلیم، نہ تکراری، نہ زردوست " نہیں ہونا چاہیے (1تیمتھیس3 باب 2-4 آیت)؟اگر ہم پاک ہونے کے لئے بُلائے گئے ہیں (1پطرس1 باب 16 آیت)، اور اگر یہ معیارکلیسیائی بزرگوں اور خدمتگاروں کے لئے پاک ہیں، تو پھر یہ سب کے لئے پاک ہیں۔
افسیوں5 باب 22-33 آیات شوہروں اور بیویوں کے درمیان تعلقات کی بات کرتی ہیں۔ جہاں یہ آیات ایک شوہر (صیغہ واحد) کا حوالہ دیتی ہیں تو وہاں یہ ہمیشہ ہی بیوی (صیغہ واحد) کو بھی پیش کرتی ہیں۔ "کیونکہ شوہر بیوی (واحد) کا سر ہے۔۔۔ جو اپنی بیوی (واحد) سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے آپ سے محبت رکھتا ہے۔ ۔۔اِسی سبب سے آدمی باپ سے اور ماں سے جُدا ہو کر اپنی بیوی(واحد) کے ساتھ رہے گا اور وہ دونوں ایک جسم ہوں گے۔۔۔ بہرحال تم میں سے بھی ہر ایک اپنی بیوی (واحد) سے اپنی مانند محبت رکھے اور بیوی (واحد) اِس بات کا خیال رکھے کہ اپنے شوہر(واحد) سے ڈرتی رہے"۔ اگرچہ اِس جیسا ہی حوالہ کُلسیوں3باب 18- 19آیات کسی حد تک شوہروں اور بیویوں کو صیغہ جمع میں پیش کرتا ہے تو یہاں پر یہ بات ہم سب پر واضح ہونی چاہیے کہ کلیسوں کے اِس حوالے میں پولُس رسول کُلسیوں کے تمام ایماندار شوہروں اور بیویوں سے خطاب کر رہا ہے، اور وہ قطعی طور پر یہ بیان نہیں کر رہا کہ ایک شوہر کثیر بیویاں رکھ سکتا ہے۔ اِس کے برعکس، افسیوں5 باب 22-33 آیات خاص طور پر ازدواجی تعلقات کی وضاحت کر رہی ہیں۔ اگر کثرتِ ازدواج کی اجازت ممکن ہوتی تو مسیح کی اُس کے بدن یعنی کلیسیا کے ساتھ تعلق کی شوہر اور بیوی کے باہمی تعلق کے ساتھ مماثلت کی تصویرکشی ناممکن ہوتی۔
(3) یہ سلسلہ یا اِس کے بارے میں نظریہ تبدیل کیوں ہوا؟ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ خُدا کسی وقت کسی چیز یا بات کی اجازت دیتا ہے اور بعد میں اُس سے منع کر دیتا ہے، لیکن یہاں پر یہ معاملہ اتنا اہم نہیں جتنا اہم یہ بات ہے کہ خُدا شادی کو اپنے اصل منصوبے کے مطابق بحال کرتا ہے۔اگر ہم آدم اور حواؔ پر واپس آئیں تو بھی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کثرتِ ازدواج خُدا کا اصل اِرادہ نہیں تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ خُدا نے کسی مسئلے کو حل کرنے کے لئے کثرتِ ازدواج کی اجازت دی تھی، لیکن یہ عمل بہت زیادہ مثالی نہیں ہے۔ جدید ترین معاشروں میں، کثرتِ ازدواج کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ آج بہت سی ثقافتوں میں عورتیں کثرتِ ازدواج کے واحد"مثبت" پہلو کو ختم کرتے ہوئے خود کو محفوظ رکھنے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہیں۔ اِس کے علاوہ جدید تہذیب کی حامل ترقی یافتہ اقوام نے کثرتِ ازدواج کو قانونی طور پر غلط قرار دے دیا ہے۔ رومیوں13 باب 1-7 آیات کے مطابق، ہمیں اعلی حکومتوں کے تابع رہنا ہے۔ بائبل میں قانون کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت صرف اُسی صورت میں ہے جب قانون براہِ راست خُدا کے حکم کی خلاف ورزی کر رہا ہو۔ (اعمال5 باب 29 آیت)۔ چونکہ خُدا کثرتِ ازدواج کے عمل کو ماضی میں رونما ہونے دیتا ہے لیکن اِس کا باقاعدہ حکم نہیں دیتا، اِس لئے کثرتِ ازدواج سے منع کرنے والے قانون کو قائم کرنا چاہیے اور اُس کی پابندی کرنی چاہیے۔
کیا ایسے کوئی حالات پیدا ہو سکتے ہیں جن میں کثرتِ ازدواج کی اجازت کا آج بھی اطلاق ہو سکتا ہے؟ شاید ہی کوئی ایسی صورتحال ہو جس میں اِس کا اطلاق ہو پاتا لیکن یہ گہری بات ہے اور شایدہ ہی کوئی ایسا مسئلہ ہو جس کا مزید شادیاں کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا بہتر اور ممکنہ حل نہ ہو۔ شادی کےبندھن میں "ایک تن" ہونے کا پہلو میاں بیوی کی یگانگت اور ہم آہنگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اور اِس لحاظ سے بھی کثرتِ ازدواج کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی وہ اِس مقصد کو پورا کرتی ہے۔ ہمارا یہ پختہ ایمان ہے کہ کثرتِ ازدواج خُدا کو جلال نہیں دیتی اور نہ ہی کثرتِ ازدواج شادی کے لیے اُس کا اصل منصوبہ ہے۔
English
خُدا نے بائبل میں کثرتِ ازدواج کی اجازت کیوں دی؟