سوال
آبادی پر قابو پانے کے حوالے سے بائبل کیا کہتی ہے ؟
جواب
بائبل آبادی پر قابو پانے کے بارے میں کچھ نہیں کہتی۔ ا ِس کی بجائے انسانوں کے لیے حکم ہے کہ تم "پھلو اور بڑھو "(پیدایش 1باب 22، 28آیت)۔ 127زبور 3-5آیات ہمیں بتاتی ہیں کہ اولاد خداکی طرف سے میراث ہے اور پیٹ کا پھل اُس کی طرف سے اجر ہے۔
جس وقت یہ تحریر قلمبند کی جا رہی ہے اُس وقت دنیا میں تقریباً 7.1 بلین لوگ ہیں ۔ یہ بہت سارے لوگ ہیں لیکن اس تعداد کے پسِ منظر میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی صرف ٹیکساس ریاست میں ہی تقریبا 7.5 ٹریلین مربع فٹ زمین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نظریاتی طور پر دنیا کا ہر فرد ٹیکساس ریاست میں سما سکتا ہےاور ہر شخص کے پاس 1,056 مربع فٹ جگہ ہو گی -یعنی چار افراد کے خاندان کے لیے 4,224 مربع فٹ! کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ لوگوں کی تعداد نہیں بلکہ وسائل (خوراک، پانی وغیرہ) اور اُن وسائل کو تقسیم کرنے کی قابلیت میں کمی اصل مسئلہ ہے۔
اگر زمین پر موجود تمام لوگ ٹیکساس ریاست میں آرام سے سماسکتے ہیں تو لوگوں کو ملنے والی اُس وسیع جگہ کا تصور کریں اگر وہ پورے براعظم میں یکساں طور پر پھیل جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر تمام افریقہ (11.7 ملین مربع میل) کو رہائش کے لیے استعمال کیا جائے تو ہر انسا ن کے پاس کتنی گنجائش ہوگی؟ (جواب ہے تقریباً 1 ایکڑ فی شخص ۔) یہاں تک کہ اگر ہم صحارا ریگستان کو اس تقسیم سے نکال دیں تو افریقہ جو دنیا کا دوسرا سب سے بڑا براعظم ہے اُس میں ہر فرد کے رہنے کے لیے کافی جگہ ہوگی اور پھر بھی پانی، کاشتکاری اور سڑکوں اور دیگر بنیادی ڈھانچوں کے لیے جگہ موجود ہے ۔ بات یہ ہے کہ زمین پر وسیع گنجائش ہے اور دنیا کی آبادی پر "قابو" پانے کی ضرورت نہیں ہے۔
یقیناً دنیا کے کچھ علاقے ایسے ہیں جو گنجان آباد ہیں - کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بعض بڑے بڑے شہروں میں آبادی کا غیر صحت بخش گنجان پن پایا جاتا ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں اُن شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں جو ا س بہاؤ کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہیں۔ غربت، بیماری اور جرم جو کثرتِ آبادی کی پیدا وار ہیں اُن پر نظر ڈالنا ہی تکلیف دہ ہے۔ شہر ی علاقوں میں کثر ت ِ آبادی کے مسئلے کا کوئی آسان حل نہیں ہے لیکن مزید مکانات کی تعمیر کرنے ، افرادی قوت میں اضافہ کرنے ، تعلیم دینے اور شرح پیدایش پر قابو پانے کے پروگراموں کا اہتمام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بدقسمتی سے وہ لوگ جو آبادی پر قابو پانے کے حامی ہیں اکثر اِس عمل کے لیے بے دین طریقوں جیسے کہ اسقاط حمل، رحمدلانہ موت دینے اور جبری نس بندی کی حمایت کرتے ہیں۔ جبری اسقاط حمل جیسی منصوبہ بندیاں بائبل کی اس تعلیم سے براہ راست متصادم ہیں کہ انسانی زندگی مقدس ہے۔ آبادی پر قابو پانے کی حمایت کرنے والے بہت سے لوگ اُن پالیسیوں کو فروغ دیتے ہیں جنہوں نے پہلے ہی سے فرض کر رکھا ہے کہ لوگوں کی تعداد بڑا مسئلہ ہے جبکہ اصل مسئلے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
بنیادی مسئلہ نہ تو آبادی کا حجم ہے اور نہ ہی وسائل کی دستیابی ۔ اصل مسئلہ گناہ ہے۔ خودغرض، گنہگار اور طاقت کے بھوکے لوگوں نے خدا کی تخلیق کا غلط استعمال کیا ہے۔ خدا کا ارادہ تھا کہ انسان باقی تمام مخلوقات پر حکمرانی کرے (پیدایش 1باب 26آیت)۔ انسانوں کو زمین پر مختار ہونا تھا اور 1کرنتھیوں 4باب 2آیت مزید اضافہ کرتی ہے کہ " مُختار میں یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ دِیانت دار نکلے "۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بدعنوان حکومتی اراکین ملک کے وسائل کے قابل بھروسہ مختاروں کے طور پر کام کرنے کی بجائے اکثر ذخیرہ اندوزی کرتے ، وسائل کا غلط استعمال کرتے اور اپنے لوگوں کی کفالت کو دیکھنے کے برعکس پیسے کو فضول خرچی میں اُڑاتے ہیں۔ بے ایمان تجارتی ادارے بھی خوراک کی فراہمی پر زیادہ سے زیادہ قابو پانے کی کوشش کرتے اور معاشرے کو فائدہ پہنچانے کی بجائے منافع بخش لین دین کرنے کے لیے زیادہ تیار نظر آتے ہیں۔
"کثرت ِ آبادی " کے لیے بائبلی حل لوگوں کے کم کئے جانے کا تقاضا نہیں کرتا،خصوصاً اُس وقت جب اِس میں موجودہ آبادی کو مسترد کرنا شامل ہے ۔ بائبل کا حل یہ ہے کہ لوگوں کا ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی حد تک احترام کیا جائے (مرقس 12باب 31آیت)۔ اس لحا ظ سے مسئلہ ہوسکتا ہے کہ آبادی کو کس طرح تقسیم کیا جاتا ہے اور وسائل کو کس طرح منظم کیا جاتا ہے لیکن زمین پر لوگوں کی بڑی تعدا د اصل مسئلہ نہیں ہے۔ لالچ، اقتدار کی ہوس اور بے وقوفی وسائل کے غلط استعمال کا باعث بنتی ہے اور اس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ نقصان اٹھاتے ہیں۔
English
آبادی پر قابو پانے کے حوالے سے بائبل کیا کہتی ہے ؟