سوال
مابعد از جدید یت مسیحیت کیا ہے ؟
جواب
مابعد از جدیدیت مسیحیت کو ایک مختصر اور جامع تعریف میں قید کرنا اُتنا ہی مشکل ہے جتنا مابعد از جدیدیت کے نظریے کی تعریف کرنا مشکل ہے۔ جو تصور جدت پسند سوچ اور اسلوب کےخلاف ردّ ِ عمل کے طور پر 1950 کی دہائی میں فن تعمیر کی صورت میں شروع ہوا تھا اُسے 1970 اور 1980 کی دہائی میں فن اور ادبی دنیا کی طرف سے فوراً اپنا لیاگیا تھا ۔ کلیسیا نے 1990 کی دہائی تک اس اثر کو محسوس نہیں کیا تھا ۔ یہ ردّ عمل "سرگرم،غیر واضح نسبت پسند ی" کی حمایت میں " سرد ، ٹھوس حقیقت " کو نظر انداز کرنے کی صورت میں ظاہر ہوا تھا ۔ مابعد از جدیدیت خیال کی جانے والی کسی بھی چیز کے بارے میں سوچیں اور پھر مسیحیت کو اس پسِ منظر میں رکھیں تو آپ کو اس با ت کی جھلک ملے گی کہ مابعد از جدیدیت مسیحیت کیا ہے ۔
مابعد از جدید مسیحیت نظریہ مابعد از جدیدیت کی سوچ سے متفق ہے ۔ یہ عقل پر تجربے ،عالمگیریت پر نسبتیت، مذہب پر رُوحانیت، الفاظ پر تصاویر اور باطنیت پر ظاہریت کو ترجیح دینے کے بارے میں ایک نظریہ ہے ۔ کیا یہ باتیں اچھی ہیں ؟بالکل۔ کیا یہ باتیں بُری ہیں ؟ بالکل۔ یہ سب اِس بات پر منحصر ہے کہ جدیدیت کے خلاف ہر ردّعمل کسی شخص کے ایمان کو بائبلی سچائی سے کتنا دور لے جاتا ہے ۔اِس چیز کا انحصار یقیناً ہر ایک ایماندار کی اپنی ذات پر ہے۔ تاہم جب گروہ اس طرح کی سوچ کے زیر ِ سایہ تشکیل پاتے ہیں تو علمِ الہیات اور عقائد کا آزاد خیالی کی جانب زیادہ رجحان ہو جا تا ہے ۔
مثال کے طور پر، کیونکہ تجربے کو عقل کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے تو سچائی نسبتی ہو جاتی ہے ۔ اس عمل سے تمام طرح کے مسائل سر اُٹھا لیتے ہیں کیونکہ یہ عمل اس معیار کو کم کر دیتا ہے کہ بائبل حتمی سچائی پر مشتمل ہے اور یہاں تک کہ یہ متعدد معاملات میں بائبلی سچائی کے حتمی ہونے کو بھی غیر مناسب قرار دیتاہے ۔ اگر بائبل ہمارے لیے حتمی سچائی کا منبع نہیں ہے اور اگر شخصی تجربے کو اس بات کی وضاحت اور تشریح کر نے کی اجازت دی جاتی ہے کہ سچائی کیا ہے تو اُس صورت میں یسوع مسیح پر نجات بخش ایمان بے معنی قرار پاتا ہے ۔
جب تک نسلِ انسانی اِس موجودہ زمین پر بسی ہے " نظریاتی ارتقا" ہمیشہ جاری رہے گا کیونکہ نسلِ انسانی علم اور قد میں مسلسل خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی رہے گی ۔ ہمارے سوچنے کے انداز میں چیلنجز کا ہونا اچھی بات ہے کیونکہ یہ ہمارے لیے آگے بڑھنے ، سیکھنے اور سمجھنے کا سبب بنتے ہیں۔ہماری عقلوں کے نئے ہو جانے کے تعلق سے یہی اُصول رومیوں 12باب 2آیت میں کام کرتا ہے ۔ اس کے باجود ہمیں اعمال 17باب 11آیت کی روشنی میں ہمیشہ محتاط رہنے اور کلام مقدس کے خلاف ہر نئی تعلیم اور ہر نئی سوچ کو جانچنے میں بیریہ کے ایمانداروں کی مانند بننے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے تجربات کو اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ ہمارے لیے کلامِ مُقدس کی تشریح کریں لیکن جب ہم رُوح القدس کے وسیلے تبدیل ہوتے اور خود کو مسیح کے مشابہ کرتے ہیں تو ہم کلامِ مقدس کی روشنی میں اپنے تجربات کی تشریح کرتے ہیں ۔ بدقسمتی سےمابعد از جدید یت مسیحیت سے منسلک حلقوں میں ایسا نہیں ہو رہا ۔
English
مابعد از جدید یت مسیحیت کیا ہے ؟