سوال
نظریہ مابعد جدیدیت کے کیا خطرات ہیں؟
جواب
سادہ الفاظ میں کہیں تو مابعد جدیدیت ایک ایسا فلسفہ ہے جو خصوصاً مذہب اور رُوحانیت کے معاملات میں کسی ہمہ گیر یا مطلق سچائی کی تصدیق نہیں کرتا ہے ۔ خدا کی حقیقت اور مذہبی کو عملی طور پر اپنانے کے بارے میں کسی سچے دعوے کا سامنا کرنے پر مابعد جدیدیت کے نقطہ نظر کی تشریح اس بیان کے ذریعے کی جاتی ہے "یہ آپ کے لئے سچا ہوسکتا ہے لیکن میرے لئے نہیں۔" اگرچہ پسندیدہ کھانے یا فن سے متعلق ترجیحات پر گفتگو کرتے ہوئے اس طرح کا ردعمل پوری طرح موزوں ہوسکتا ہے لیکن جب اس طرح کی ذہنیت کا اطلاق سچائی کےلیے کیا جاتا ہے تو یہ خطرناک ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ نظریاتی معاملات اور حقائق پر مبنی معاملات کے درمیان الجھاؤ پیدا کرتی ہے۔
"مابعد جدیدیت" کی اصطلاح کے لفظی معنی "جدید دور کے بعد" ہے اور اس اصطلا ح کا استعمال موجودہ دور کو فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے کے لئے کیا جاتا ہے جو جدیددور کے بعد آیا ہے۔ مابعد جدیدیت نظریہ جدیدیت کے اُس ناکام وعدے کے خلاف ایک ردعمل (یا شاید زیادہ مناسب انداز میں کہیں تو ایک مایوس کُن نتیجہ ) ہے جو اُس نے انسانیت کو سنوارنے اور دنیا کو ایک بہتر مقام بنانے کے لئے صرف اور صرف بنی نوع انسان کے شعور کو استعمال کرنے کے لیے کیا تھا ۔ چونکہ جدیدیت کے تصورات میں سے ایک تصور یہ تھا کہ بلاشبہ حتمی سچائی موجودہے لہذا مابعد جدیدیت سب سے پہلے حتمی سچائی کو ختم کرنے اور اور ہر چیز (بشمول تجرباتی علوم اور مذہب) کو کسی فرد کے اعتقادات اور خواہشات سے نسبتی قرار دینے کے وسیلہ سے "درست" کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔
مابعد جدیدیت کے خطرات کو درجہ بدرجہ بدتر ہوتے جانے والی صورتحال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس کا آغاز حتمی سچائی کو رد کرنے کے ساتھ ہوتا ہے اس کے بعد جو مذہب اور ایمان کے معاملات میں امتیاز کے خاتمے کا باعث بنتا ہے اور جس کا اختتام مذہبی تکثیریت کے فلسفے کے ساتھ ہوتا ہے جس کا کہنا ہے کہ کوئی ایمان یا مذہب ہمہ گیر طور پر سچا نہیں اور اس وجہ سے کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا ہے اُس کا مذہب سچا اور دوسرے کا مذہب جھوٹا ہے ۔
مابعد جدیدیت کے خطرات - # 1 – نسبتی سچائی
مابعد جدیدیت کا نسبتا ًسچائی کے متعلق موقف فلسفیانہ مفکرین کی کئی نسلوں کا کام ہے۔ آگسٹین سے اصلاح تک مغربی تہذیب کے فکری پہلو اور حق کے تصور پر الٰہیات دانوں کا غلبہ رہا۔ لیکن 14 ویں – 17 ویں صدی کی نشاۃ ثانیہ سے شروع ہو کر مفکرین نے انسان کو حقیقت کے مرکز میں لے جانا شروع کر دیا۔ اگر کوئی تاریخ کے ادوار کو خاندانی درخت یا شجرہِ نسب کے طور پر دیکھے تو نشاۃِ ثانیہ جدیدیت کی دادی ہوگی اور روشن خیالی اس کی ماں ہوگی۔ رینے ڈیسکارٹس (Renee Descartes) کا یہ بیان" مَیں سوچتا ہوں اِس لیے مَیں ہوں" اس عہد کے آغاز کی نشاندہی تھی۔ اب خدا سچائی کا مرکز نہیں تھا بلکہ انسان سچائی کا مرکز تھا ۔
روشن خیالی کا زمانہ ایک طرح سے سچائی کے تمام پہلوؤں پر عقلیت کے سائنسی نمونے کا مکمل نفاذ تھا ۔ اس کا دعویٰ تھا کہ صرف سائنسی اعداوشمار کو ہی ہمہ گیریت کے طور پر سمجھا ، بیان کیا اوراُسکا دفاع کیا جا سکتا ہے ۔ ایسی سچائی جس کا تعلق مذہب سے تھا اُسے ترک کر دیا گیا ۔ وہ فلسفی جس نے نسبتی سچائی کے تصور میں حصہ ڈالا تھا وہ پریسن عمانوئیل کانٹ اور اس کی کتاب تنقید برائے خالص استدلال(Critique of Pure Reason) تھی جو 1781میں منظرِ عام پر آئی ۔ کانٹ کی دلیل تھی کہ خدا کے بارے میں حقیقی علم حاصل کرنا ناممکن ہے پس اس نے علم کو " حقائق" اور " ایمان " جیسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ۔ کانٹ کے مطابق " حقائق کا مذہب سے کچھ تعلق نہیں ۔" پس اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ رُوحانی معاملات کو تصوراتی امور سے منسوب کر دیا گیا اور سچائی کےتعلق سے بات کرنے کےلیے صرف تجرباتی علوم کا ذکر کرنے کی اجازت دی گئی ۔ اگرچہ جدیدیت سائنس میں پائی جانے والے حتمی سچائی کی باتوں پر یقین رکھتا تھا لیکن خدا کے مکاشفہ ِ خاص( بائبل ) کو سچائی اور یقین کے دائرہ اثر سے باہر کر دیا گیا تھا ۔
جدیدیت سے مابعد جدیدیت اور فریڈرک نیچے(Frederick Nietzche) کے تصورات نے جنم لیا ۔ مابعدجدیدیت کے فلسفے کے سرپرست بزرگ کی حیثیت سے نیچے(Nietzche) "نظریہ تناظر" کا قائل تھا جس کا کہنا ہے کہ تمام علم (بشمول سائنس) نقطہ نظر اور تشریح کا معاملہ ہے۔ بہت سے دوسرے فلسفیوں (مثال کے طور پر فوکالٹ ، رورٹی اور لائے ٹارڈ) نے اپنے کام کی بنیاد نیچے(Nietzche) کے کام پر رکھی ہے اور عام طور پر خدا اور مذہب کی تردید میں اس کے ساتھ شامل ہیں ۔ انہوں نے حتمی سچائی کے ہر سراغ کی بھی تردید کی ہے یا جیسا کہ لائے ٹارڈ ایک میٹا نیریٹو metanarrative (ایک سچائی جو تمام لوگوں اور ثقافتوں سے ماورا ہے) کو مسترد کرتا ہے۔
حتمی سچائی کے خلاف اس فلسفیانہ جنگ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مابعد جدیدیت کا فلسفہ ہمہ گیر یت کے ہر دعوے کا مکمل طور پر مخالف ہو گیا ہے ۔ ایسی ذہنیت لاخطا سچائی کے وجود کا اقرار کرنے والی ہر چیز جیسے کہ بائبل کی فطری طور پر تردید کرتی ہے ۔
مابعد جدیدیت کے خطرات - # 2 – پرکھ سے محرومی
عظیم ماہر الہیات تھامس ایکوینس نے کہا تھا کہ " پرکھ کرنا فلسفی کا کام ہے "۔ ایکوینس کا مطلب یہ تھا کہ سچائی کا انحصارپرکھ کرنے کی صلاحیت پر ہے –یعنی علم کے دائرہ اثر میں"اِس اوراُس"کے درمیان فرق کرنے کی خوبی ۔ تاہم اگر ہمہ گیر اور حتمی سچائی موجود نہیں ہے تو ہر بات شخصی تشریح کا معاملہ بن جاتی ہے ۔ مابعد از جدید کے مفکر کے نزدیک کسی کتاب کے مصنف کے پاس اپنی تحریر کی درست تشریح موجود نہیں ہوتی بلکہ یہ قاری ہی ہے جو درحقیقت اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کتاب کا کیا مطلب ہے – یہ تمام عمل ڈی کنسٹرکیشن- deconstruction (تنقید کا ایک فلسفیانہ نظریہ جو کسی کام کے مبہم تضادات کو جواُس کے سطحی معنوں کے نیچے پائے جاتے ہیں بے نقاب کرنا چاہتا ہے) کہلاتا ہے ۔
ایسی بد نظمی کی صورتحال تشریحات کے درمیان با معنی یا دیرپا امتیاز کرنا ناممکن بنا دیتی ہے کیونکہ ایسا کوئی معیار نہیں ہے جس کو استعمال کیا جا سکے۔ اس بات کا ایمان اور مذہب کے معاملات پر خصوصی طور پر اطلا ق ہوتا ہے۔ مذہب کے میدان میں مناسب اوربا معنی امتیاز پیدا کرنے کی کوشش کرنا اس دلیل سے زیادہ معنی نہیں رکھتا کہ چاکلیٹ کا ذائقہ ونیلا سے بہتر ہے۔ مابعد جدیدیت کا کہنا ہے کہ سچ کے مدمقابل دعوؤں کے مابین حقیقی طور پر فیصلہ کرنا ناممکن ہے۔
مابعد جدیدیت کے خطرات - # 3 – نظریہ تکثیریت
اگر مطلق یا حتمی سچائی موجود نہیں ہے ، اور اگر مختلف عقائد اور مذاہب کے مابین بامعنی ، صحیح / غلط تفریق کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے تو پھر اس کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ تمام عقائد کو یکساں طور پر درست سمجھا جانا چاہئے۔ مابعد جدیدیت میں اس بات کو عملی طور پر انجام دینے کی ایک مناسب اصطلاح "فلسفیانہ تکثیریت " ہے۔ تکثیریت کے ساتھ کسی بھی مذہب کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو سچا اور دوسرے مقابلہ کرنے والے عقائد کو جھوٹا ، یا اپنے سے کمتر قرار دے۔ فلسفیانہ مذہبی تکثیریت کو قبول کرنے والوں کے لیے اب کوئی بدعت نہیں رہی، سوائے اس خیال کے کہ بدعتیں موجود ہیں۔ ۔ ڈی اے کارسن قدامت پسند انجیلی بشارت کے ان خدشات کی نشاندہی کرتا ہے جن کو تکثریت کے خطرے کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے: "مَیں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا دوسری صدی میں غناسطی بدعت کے عروج کے بعد سے مَیں جسے فلسفیانہ تکثیرت کہتا ہوں اس کا بدصورت چہرہ انجیل کے لیے سب سے خطرناک خطرہ ہے۔"
مابعدجدیدیت کے بتدریج بڑھنے والے خطرات یعنی نسبتی سچائی ، پرکھ سے محرومی اور فلسفیانہ تکثیریت مسیحیت کو درپیش خطرات کی نمائندگی کرتے ہیں کیونکہ یہ مجموعی طور پر خدا کے کلام کی ایسی چیز کے طور پر تردیدکرتے ہیں جس کااصل میں نہ تو انسانیت پر کچھ اختیار ہے اور نہ ہی اس کے اندر مدمقابل مذاہب کی حامل اس دنیا میں خود کو سچا ثابت کرنے کی صلاحیت ہے ۔ مسیحیت کا ان چیلنجوں کے لیے کیا ردّ عمل ہے ؟
مابعد جدیدیت کے خطرات کے خلاف ردّ عمل
مسیحیت حتمی طور پر درست ہونے کا دعوی کرتی ہے یعنی کہ صحیح / غلط (نیز رُوحانی سچائی اور جھوٹ ) کے معاملات میں با معنی امتیازات موجود ہے اور یہ بھی کہ خدا کے بارے میں اس کے دعوؤں میں درست ہونے کے لئے مد مقابل مذاہب کے کسی بھی برعکس دعوے کا غلط ہونا ضروری ہے۔ اس طرح کا مؤقف مابعدجدیدیت کی طرف سے "متکبر" اور "عدم برداشت" کے نعرے کو اشتعال دینے کے مترادف ہے۔ تاہم سچائی رویے یا ترجیح کا معاملہ نہیں ہے اور جب اس بات کاگہرے طور پر جائزہ لیا جاتا ہے تو مابعد جدیدیت کی بنیادیں فوراً ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ مسیحیت کے دعوےبظاہر معقول اور زبردست ہیں ۔
پہلی بات ، مسیحیت دعویٰ کرتی ہے کہ حتمی سچائی موجود ہے ۔ درحقیقت یسوع بالخصوص فرماتا ہے کہ اُ سے ایک کام کےلیے بھیجا گیا ہے :" کہ حق پر گواہی دُوں "( یوحنا 18باب 37آیت)۔ مابعد جدیدیت کا کہنا ہے کہ کسی بھی سچائی کی تائید نہیں کی جانی چاہئے تاہم اس کا اپنا نقطہ نظر خود غارتی ہےکیونکہ یہ کم از کم اِس ایک حتمی سچائی کی تائید کرتا ہے : کہ کسی سچائی کی تائید نہیں کی جانی چاہیے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مابعد جدیدیت حتمی سچائی پر یقین رکھتی ہے۔ اس نظریے کے حامل فلسفی ایسی باتوں کے تعلق سے کتابیں لکھتے ہیں جن کے بارے میں وہ توقع کرتے ہیں کہ ان کے قارئین اُن کو حقیقت کے طور پر قبول کریں ۔ اسے سادہ الفاظ میں پیش کرتے ہوئے ایک پروفیسر نے کہا ہے کہ "جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ سچائی جیسی کوئی چیز نہیں ہے تو وہ آپ سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ اُس پر یقین نہ کریں ۔ لہذا اُس پر یقین نہ کریں ۔ "
مسیحیت دعویٰ کرتی ہے کہ مسیحی ایمان اور دیگر عقائد کے مابین با معنی امتیاز موجود ہیں ۔ اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ جو لوگ بامعنی امتیازکی غیر موجودگی کا دعویٰ کرتے ہیں درحقیقت وہ خود فرق پیدا کر رہے ہوتے ہیں ۔ وہ مسیحیت کے سچے دعوؤں اور اُس بات کے درمیان فرق کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جن کو وہ خود سچ مانتے ہیں ۔ مابعد جدیدیت سے تعلق رکھنے والے مصنفین نہ صرف اپنے قارئین سے یہ توقع کرتے ہیں کہ اُن کی تحریر کے بارے میں وہ صحیح نتائج اخذکریں بلکہ وہ ان لوگوں کی اصلاح کرنے کی کوشش بھی کریں گے جو اُن کےکام کی تشریح اُن کے خیال کے مطابق نہیں کرتے ۔ ایک بار پھر اُن کا نقطہ نظر اور فلسفہ خود غارتی ثابت ہوتا ہے کیونکہ جس بات کو وہ صحیح مانتے ہیں اور جس بات کو وہ جھوٹ کے طور پر دیکھتے ہیں ان دونوں کے درمیان وہ بڑے دلِ و جان سے فرق کرتے ہیں ۔
آخری بات ، مسیحیت خدا کے حضور انسان کی گناہ آلود حالت ، گناہ میں مبتلا انسانیت کی خاطر مسیح کی قربانی ، خدا اور ہر اُس انسان کے مابین جُدائی کو عالمگیر سچائی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے جو گناہ اور توبہ کی ضرورت کے بارےمیں خدا کے احکام کو قبول کرنے کا فیصلہ نہیں کرتا ۔ جب پولس رسول اتھینے میں اپکُوری اور ستوئیکی فلسفیوں سے مخاطب تھا تو اُس نے کہا کہ " پس خُدا جہالت کے وقتوں سے چشم پوشی کر کے اب سب آدمیوں کو ہر جگہ حکم دیتا ہے کہ تَوبہ کریں" ( اعمال 17باب 30آیت)۔ پولس رسول کا یہ اعلان نہیں تھا کہ "یہ میرے لیے سچ ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کےلیے سچ نہ ہو" ؛بلکہ یہ ہر انسان کے لیے خدا کی طر ف سے ایک جامع اور عالمگیر حکم( جوکہ میٹا نیریٹو)ہے ۔ مابعد جدیدیت سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص جو یہ کہتا ہے کہ پولس رسول غلط ہے وہ درحقیقت اپنے ہی تکثیری فلسفے کے خلاف غلطی کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے جس کا کہنا ہے کہ کوئی ایمان یا مذہب غلط نہیں ہے ۔ ایک بار پھر مابعد از جدیدیت کے نظریے کا ماننے والا اپنے ہی نقطہ نظر کی خلاف ورزی کرتا ہے کہ ہر مذہب یکساں طور پر سچا ہے ۔
جس طرح ریاضی کے استاد کے لئے 2 + 2 = 4 پر اصرار کرنا یا کسی تالا بنانے والے کا اس بات پر اصرار کرنا تکبر نہیں ہے کہ صرف ایک چابی ہی بند دروازے کو کھول پائے گی۔ اسی طرح ایک مسیحی کے لئے مابعد جدیدیت کے نظرے پر مبنی فکر کے خلاف کھڑا ہونا اور اس بات پر اصرار کرنا تکبر نہیں ہے کہ مسیحیت سچی ہے اور اِس کے مد مقابل ہر چیز باطل ہے۔ حتمی سچائی موجود ہے اور غلط ہونے کے نتائج موجود ہیں۔ اگرچہ نظریہ تکثیریت کھانے سے متعلق ترجیحات کے معاملات میں پسندیدہ ہو سکتا ہے لیکن یہ سچائی کے معاملات میں مددگار نہیں ہے۔ ایک مسیحی کو خدا کی سچائی کو محبت کے ساتھ پیش کرنا چاہیے اورمسیحیت کے جامع دعوؤں سے ناراض کسی بھی مابعد جدیدیت کے حامی سے یہ پوچھنا چاہیے کہ "تو کیا تمہارے ساتھ سچ بولنے کے سبب سے مَیں تُمہارا دُشمن بن گیا ہوں؟"( گلتیوں 4باب 16آیت)۔
English
نظریہ مابعد جدیدیت کے کیا خطرات ہیں؟