سوال
کیا خوشحالی کی انجیل کی منادی کرنے والے سبھی بھیڑیے/ جھوٹے استاد ہیں ؟
جواب
اِس سے پہلے کہ ہم اس سوال پر سنجیدگی سے توجہ دیں ہمیں پہلے خوشحالی کی انجیل کی منادی کرنے والوں کی اصطلاح کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔ مختلف خدمتی ا دارے انجیل کی منادی کرنے کے لیے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر امدادی تنظیمیں خُداوند یسوع کو جلال دیتے ہوئے بے سہارا افراد کی جسمانی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ کچھ لوگ اس نقطہ نظر کی تشریح خوشحالی کی انجیل کی منادی کے طور پر کر سکتے ہیں کیونکہ بہت سے غریب لوگ مسیحیت کو مغربی خوشحالی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ وہ انجیل کے پیغام کے لیے ر دّ عمل ظاہر کر سکتے ہیں جبکہ اُن کا اصل محرک خوشحال ہونا ہے۔ تاہم زیادہ تر امدادی تنظیموں کے لیے جسمانی ضروریات کو پورا کرنا ہر لحاظ سے انسان کی خدمت کا محض ایک حصہ ہے۔ یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے وسیلے مسیحی مصیبت زدہ لوگوں کی رُوحانی ضروریات کے بارے میں بات کرنے کا موقع حاصل کرتے ہیں۔ لیکن خوشحالی کی انجیل میں یسوع کو کامل صحت اور مالی دولت کےحصول کے ٹکٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں حقیقی انجیل کی توجہ کو ابدیت پر سے ہٹا دیا جاتا اور اِسے ایک ایسے ذریعے تک محدود کر دیا جاتا ہے جس کے وسیلہ سے اب ہر کوئی اپنی بہترین زندگی کا تجربہ کر سکتا ہے۔ اِس مضمون میں ہم اسی پیغام پر توجہ دیں گے۔
پرانے عہد نامے میں خُدا اپنے بندوں کو دنیاوی صحت، دولت اور عزت بخشنے کے بارے میں بہت کچھ فرماتا ہے (مثلاً، پیدایش12باب 2 آیت؛احبار 26باب 3-12آیات؛ استثنا 7باب 11-15آیات؛ 30باب 8-9آیات؛ 1سلاطین 3باب 11-14آیات)۔ مادی برکات اسرائیل کے لیے موسوی اور موعودہ سرزمین سے متعلق وعدوں کا حصہ تھیں۔ تاہم نئے عہد نامے کی توجہ زمینی برکات پر نہیں بلکہ ابدیت پر ہے۔
ہر وہ مبلغ جو برکت کی تعلیم دیتا ہے وہ "خوشحالی کی انجیل کا منادی کرنے والا" نہیں ہے۔ خدا اُن لوگوں سے برکت کا وعدہ کرتا ہے جو وفاداری سے اُس کی خدمت کرتے اور اُس کے قوانین پر عمل کرتے ہیں (107زبور 9آیت؛ ملاکی 3باب 10-11آیات؛ مرقس 10باب 29-30آیات)۔ لیکن کوئی مبلغ جو خدا کو ایک ایسے وسیلے کے طور پر پیش کرتا ہے جس سے ہم دنیاوی دولت حاصل کر سکتے ہیں وہ خوشحالی کی انجیل کی منادی کرنے والاجھوٹا استاد ہے۔ یہ تعلیم قادرِ مطلق خدا کو ایک ایسے خوش مزاج سانتا کلاز کے طور پر پیش کرتی ہے جس کا بنیادی مقصد انسانوں کو خوشحالی بخشنا اور اُن کے خوابوں کو سچ کرنا ہے۔ خوشحالی کی انجیل کی منادی میں اہم ذات خدا نہیں بلکہ انسان ہے۔
خوشحالی کی انجیل کے استادایمان، مثبت اقرار یا خدا سے برکات کے "جاری " ہونے کے تصور جیسی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں ۔ ایسے مبلغین خدا کے حضور سرمایہ کاری سے بکثرت اجر پانے کا وعدہ کرتے ہوئے اکثر سامعین کو "اِس خدمت میں بیج بونے" پر اکسائیں گے ۔ یوں انجیل محض فوراً دولت مند ہونے کی ایک ایسی سکیم بن جاتی ہے جس میں ایسے خادمین اپنے سامعین کے مقابلے میں امیر سے امیر تر ہوتے جاتے ہیں ۔ مسیح کو قبول کرنے کی دعوت اکثر ایک ایسے پیغام کے اختتام پر دی جاتی ہے جسے صرف اور صرف برکت اور مثبت پہلوؤں پر مرکوز کیا گیا ہوتا ہے۔ دعوت پر ظاہر ہونے والے زبردست ردعمل کے باوجود کسی بھی شخص کویہ سوچنے کی ضرورت ہےکہ : کیا ردّ عمل ظاہر کرنے والے لوگ بائبل میں پیش کردہ یسوع کے سامنے سر تسلیم خم کر رہے ہیں یا کہ خود کے نئے اور بہتر ورژن کے سامنے؟
سچائی سے گمراہی کی طرف منتقلی دقیق ہوسکتی ہےاور کچھ نیک نیت مبلغین اس کا شکا ر ہوتے رہے ہیں۔ ہمیں اس لحاظ سے محتاط رہنا چاہیے کہ ہم کسی منادی کرنے والے کے پورے پیغام کو محض چند ایک وعظوں کی بنیاد پر نہ پرکھیں۔ تاہم جب کسی مقرر کے عقیدے پر خوشحالی کی انجیل کا واضح غلبہ ہوتا ہے تو یہ محض لالچ اور مادیت کو رُوحانی بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔ افسیوں 5باب 5آیت میں لالچی لوگوں کے بارے میں سخت الفاظ ہیں: " کیونکہ تُم یہ خُوب جانتے ہو کہ کسی حرام کار یا ناپاک یا لالچی کی جو بُت پرست کے برابر ہے مسیح اور خُدا کی بادشاہی میں کچھ مِیراث نہیں"۔ اگر چہ ہمیں خُدا سے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے التجا کرنی چاہیےاور اُس سے ایسا کرنے کی توقع رکھنی چاہیے (فلپیوں 4باب 19آیت )لیکن یسوع نے ہمیں خبردارکیا ہے کہ ہم زمینی مال و دولت کو جمع نہ کریں بلکہ ہمیں آسمان پر خزانہ جمع کرنا چاہیے (لوقا 12باب 33آیت)۔
خوشحالی کی انجیل کے مبلغین کی زمینی مال و دولت پر غیرمتوازن توجہ اُن متعدد اقتباسات کے بالکل برعکس ہے جو ہمیں متنبہ کرتے ہیں کہ ہم دولت کی خواہش نہ رکھیں (امثال 28باب 22آیت ؛ 2 تیمتھیس 3باب 2آیت ؛ عبرانیوں 13باب 5آیت )۔ پہلا تیمتھیس 6باب 8-10آیات اس قسم کی تعلیم کے بارے میں براہ راست بات کرتی ہیں : " پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اُسی پر قناعِت کریں۔ لیکن جو دَولت مَند ہونا چاہتے ہیں وہ اَیسی آزمایش اور پھندے اور بُہت سی بے ہُودہ اور نُقصان پُہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں جو آدمیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غَرق کر دیتی ہیں۔ کیونکہ زَر کی دوستی ہر قسم کی بُرائی کی جڑ ہے جس کی آرزُو میں بعض نے اِیمان سے گمراہ ہو کر اپنے دِلوں کو طرح طرح کے غَموں سےچھلنی کر لِیا"۔ جب دنیاوی دولت ہماری توجہ کا مرکز ہوتی ہے تو ہم کلام مقدس کی تعلیمات پر عمل نہیں کر رہے ہوتے ۔
اگر کسی مبلغ کے پیغام پر خوشحالی کی خواہش حاوی ہے تو وہ کوئی ایسا شخص ہو سکتا/سکتی ہے جس کے بارے میں کلامِ مقدس خبردار کرتا ہے۔ خوشحالی کی انجیل کے متعدد مبلغین یا جھوٹے استادوں کی کچھ مشترکہ خوبیاں درج ذیل ہیں:
• یہ بیان اُس کے پیغامات کا ہمیشہ مرکز ہوتا ہے کہ خدا سب کو برکت دینا چاہتا ہے ۔
• خودی سے انکار، اپنی صلیب اٹھانے یا جسم کے اعتبار سے مرنے کے بارے میں یسوع کے الفاظ کا اگر کوئی ذکر ہوتا بھی ہے تو وہ بہت قلیل ہوتاہے(لوقا 9باب 23آیت؛ متی 10باب 38باب؛ 16باب 24آیت)۔
• غالباً اُن کی تمام تعلیمات رُوحانی تبدیلی کی بجائے جسمانی خواہشات کی تسکین پر مرکوز ہوتی ہیں (رومیوں 8باب 29آیت)۔
• برکت کے حصول کے لیے بطور شرط خُدا کے احکام کی فرمانبرداری کرنے کا شاذ و نادر ہی ذکر کیا جاتا ہے (یرمیاہ 18باب 10آیت )۔
• اپنے بارے میں اور اپنے حالات کے بارے میں مثبت سوچ کو اکثر ایمان سے تشبیہ دی جاتی ہے اور اسے ایک ایسے وسیلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس سے کوئی شخص مالی برکت حاصل کر سکتا ہے۔
• اُن کے پیغام میں ایسی تعلیم واضح طور پر غائب ہوتی ہے جو کسی ایماندار کی زندگی میں مصائب کو ضروری قرار دیتی ہے (2 تیمتھیس 2باب 12آیت ؛ 3باب 12آیت ؛ رومیوں 8باب 17آیت ؛ فلپیوں 1باب 29آیت)۔
• پیغام کے مثبت وعدوں کے تعلق سے خدا کے لوگوں اور غیر نجات یافتہ لوگوں کے درمیان بہت کم فرق کیا جاتا ہے (ملاکی 3باب 16-18آیات؛ رومیوں 9باب 15-16آیات)۔
• واعظ ایسی حقیقی بائبلی تعلیمات دینے کی شاذ و نادر ہی کوشش کرتا ہے جو مثبت پہلوؤں اور برکت کے مسلسل پیغام کی حمایت نہیں کرتیں (1 کرنتھیوں 3باب 1-3آیات)۔
• وہ اُن حوالہ جات سے کنارہ کشی کرتا / کرتی ہے جو پیغام کے مثبت بیان سے متصادم ہوں (2 تیمتھیس 4باب 3آیت )۔
• خادم کی ذاتی دولت اکثر اُس کی کلیسیائی جماعت کے اوسط طرز زندگی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے (49زبور 16-17آیات)۔
• خُدا کی واحد صفات جن کا ذکر کیا جاتا ہےمحبت اور شفقت ہوتی ہیں۔ اُس کی پاکیزگی، عدالت اور راستبازی پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے (افسیوں 4باب 22-23آیات)۔
• نہ تو گناہ کے خلاف خُدا کے غضب کا اور نہ ہی آنے والی عدالت کا کبھی ذکر کیا جاتا ہے (رومیوں 2باب 5آیت ؛ 1 پطرس 4باب 5آیت )۔
• منفی رویہ ،غربت یا کسی شخص کی خود پر یقین کرنے میں ناکامی وہ مخصوص "گناہ " ہیں جن پر کثرت سے بات کی جاتی ہے (1کرنتھیوں 6باب 9-10آیات؛ فلپیوں 3باب 3آیت)۔
• معافی پر زور تو دیا جاتا ہے مگر اُس توبہ کی بہت کم وضاحت کی جاتی ہے جو خدا وند یسوع اور شاگردوں کے نزدیک اہمیت کی حامل تھی (متی 4باب 17آیت ؛ مرقس 6باب 12آیت ؛ اعمال 2باب 38آیت)۔
• ایمانی دعا کو اکثر اُس وسیلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کے ذریعے انسان "خدا کو برکت دینے کا پابند کر دیتا ہے " (ایوب 40باب 1-2آیات )۔
مسیحیت کے اندر انجیل کے پیغام کے حوالے سےایسی غیر محسوس طور پر ہونے والی تبدیلی جاری ہے جس کی رسول اپنے دَور میں کسی بھی صورت میں اجازت نہ دیتے۔ لوگ بائبلی علم سے محروم ہوتے جا رہے ہیں اور اس طرح وہ با آسانی ایسے مبلغین کے زیر اثر آ جاتے ہیں جو کلام کو جاننے والے معلوم ہوتے ہیں مگر جو اِسے مزید پُر کشش بنانے کے لیے بگاڑ رہے ہیں۔ یہ مبلغین اُسی طرح بہت بڑے ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں جیسے یسوع نے ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلانے (متی 14باب 21آیت )، بیماروں کو شفا دینے (مرقس 1باب 34آیت)اور معجزے دکھا نے (یوحنا 6باب 2آیت) کے وقت کیا تھا ۔ لیکن جب یسوع نے انجیل کی سخت سچائیوں کو سکھانا شروع کیا تو" بہتیرے اُلٹے پھر گئے اور اِس کے بعد اُس کے ساتھ نہ رہے" (یوحنا 6 باب 66آیت )۔ مگر کم ہوتی مقبولیت یسوع کے لیے اپنے پیغام کو تبدیل کرنے کا باعث نہ بنی ۔ وہ سچائی کی تعلیم دیتا رہا چاہے لوگوں نے اسے پسند کیا یا ناپسند کیا (یوحنا 8باب 29آیت )۔ اِسی طرح پولس رسول نے اِن الفاظ کے ساتھ خود کو افسس کی کلیسیا کے ایمانداروں کے سامنے بِری ٹھہرایا: "پس مَیں آج کے دِن تمہیں قطعی کہتا ہُوں کہ سب آدمیوں کے خُون سے پاک ہُوں۔ کیونکہ مَیں خُدا کی ساری مرضی تم سے پُورے طَور پر بیان کرنے سے نہ جھجکا" (اعمال 20باب 26-27آیات)۔ اگر آج کل کے خوشحالی کی انجیل کے استاد یسوع اور پولس کے نمونوں کی پیروی کرتے ہیں تو وہ پُریقین ہو سکتے ہیں کہ قیامت کے روز اُن کے کام بھسم نہ ہوں گے (1 کرنتھیوں 3باب 12-15آیات)۔
English
کیا خوشحالی کی انجیل کی منادی کرنے والے سبھی بھیڑیے/ جھوٹے استاد ہیں ؟