سوال
تنقیدِ تالیف و ترمیمِ نو اور تنقیدِ عالیہ سے کیا مُراد ہے؟
جواب
تنقیدِ تالیف و ترمیم ِنو (Redaction criticism) اور تنقیدِ عالیہ (higher criticism) بائبل پر کی جائے والی مختلف اقسام کی تنقید میں سے چند ایک ہیں۔ اِن کا مقصد صحائف کے متعلق تفتیش کرنا اور اُن کے مصنفین ، تاریخ اور تاریخِ تصنیف کے بارے میں فیصلہ سازی کرنا ۔ ان میں سے تنقید کے بیشتر طریقہ کار بائبل کے متن کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
بائبلی تنقید کو دو اہم اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :تنقیدِ عالیہ اور نچلے درجے کی تنقید۔ چونکہ ہمارے پاس اصل متن موجود نہیں ہیں اس لیےنچلے درجے کی تنقید میں متن کے اصل الفاظ کی تلاش کرنے کی کوشش جاتی ہے ۔ تنقیدِ عالیہ کا تعلق متن کی صداقت سے ہے۔اس تنقید میں کچھ ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں مثلاً حقیقی طور پر یہ کب لکھا گیا تھا؟ اِس متن کو اصل میں کس نے لکھا تھا؟
اِن دونوں گروہوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے ناقدین کتابِ مقدس کے الہامی ہونے پر ایمان نہیں رکھتے اور اِس لئے کتاب مقدس کے مصنفین کی زندگیوں میں رُوح القدس کے کام کو خارج کرنے کے لئے ایسے سوالات کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ مانتےہیں کہ پرانا عہد نامہ محض زُبانی روایات کی تدوین تھی اور حقیقت میں یہ 586 قبل از مسیح میں اسرائیل کے بابُل کی اسیری میں جانے کے بعد تک نہیں لکھا گیا تھا۔
یقیناًہم کتاب مقدس میں دیکھ سکتے ہیں کہ موسیٰ نے شریعت اور پرانے عہد نامے کی پہلی پانچ کتابوں (جنہیں اسفار ِ خمسہ کہا جاتا ہے ) کو لکھا تھا۔ اگر یہ کتابیں موسیٰ کی طرف نہ لکھی جاتیں اور اگر یہ اسرائیل کے قیام کے کئی برس بعد تک بھی نہ لکھی گئی ہوتیں تو اُس صورت میں ناقدین نے لکھے گئے متن کی غیر درستگی کا دعویٰ کرنے اور اِس طرح خُدا کے کلام کی صحت کو مسترد کرنے کے قابل ہو جانا تھا ۔ لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ (موسیٰ کے پرانے عہد نامے کی پہلی پانچ کتابوں کے مصنف ہونے کے ثبوتوں کی تفصیل جاننے کے لئے ہمارے مضامین دستاویزی مفروضہ اورجے۔ای۔ڈی۔پی نظریے کو پڑھیں)۔تنقیدِ تالیف و ترمیم ِ نو کا تصور یہ ہے کہ اناجیل کے مصنفین زُبانی روایات کے مولفین سے بڑھ کر کچھ اور نہیں تھے، اور حقیقت میں وہ خود اناجیل کے براہِ راست مصنفین نہیں تھے۔ تنقیدِ تالیف و ترمیمِ نو کے نظریے کے ماننے والے ایک نقاد کا کہنا ہے کہ اُن کے مطالعے کا مقصد مسیحیت کے اندر مصنف کے انتخاب کے عمل اور روایات یا دیگر تحریری مواد کی تالیف کے پیچھے " الہٰیاتی تحریک" کی تلاش کرنا ہے۔
بائبل کی تنقید کی اِن تمام اقسام میں بنیادی طور پر یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ بعض ناقدین نے خُد اکے کلام کی صحیح، معتبر تحریری دستاویز کی پیداور میں رُوح القدس کے کام کو الگ کرنے کی کوشش ہے۔ کتابِ مقدس کے مصنفین نے وضاحت کی ہے کہ صحائف کیسے وجود میں آئے ہیں ۔ "ہر ایک صحیفہ جو خُدا کے الہام سے ہے"(2تیمتھیس 3باب 16آیت)۔ خُدا ہی نے انسانوں کو وہ کلام دیا ہے جِسے وہ تحریر کرنا چاہتا تھا۔ پطرس رُسول نےلکھا ہے "اور پہلے یہ جان لو کہ کتابِ مقدس کی کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی رُوح القدس کی تحریک کے سبب سے خُدا کی طرف سے بولتے تھے" (2پطرس 1باب 20اور 21آیات)۔ یہاں پطرس بیان کر رہا ہے کہ یہ تصانیف انسانی ذہن کی ایجادنہیں ہیں اور نہ انسانی خواہش سے لکھی گئی ہیں۔ پطرس مزید فرماتا ہے "کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی رُوح القدس کی تحریک کے سبب سے خُدا کی طرف سے بولتے تھے" (2پطرس 1باب 21آیت )۔ رُوح القدس نے اُنہیں وہی کچھ بتایا جو وہ اُن سے لکھوانا چاہتا تھا۔ جب ہم جان سکتے ہیں کہ تحریر کے مناظر کے پیچھے خدا براہِ راست طور پر انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کر رہا تھا تو اس صورت میں صحائف کی صحت پر تنقید کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی ۔
"لیکن مددگار یعنی رُوح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ مَیں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا" (یوحنا 14باب 26آیت)۔ یہاں یسوع اپنے شاگردوں کو بتا رہا ہے کہ وہ جلد اُن سے جُدا ہو جائے گالیکن رُوح القدس وہ باتیں یاد کرنے میں اُن کی مدد کرے گا جن کی زمین پر اُنہیں تعلیم دی گئی ہے تاکہ وہ بعد میں اُن کو تحریر کر سکیں۔ خُدا مصنفین اور کتابِ مقدس کی حفاظت کےلیے کام کر رہا تھا۔ تنقیدِ تالیف و ترمیم ِ نو اور تنقیدِ عالیہ انسانی حد بندیوں کو اُس خدا پر لاگو کرنے کی کوشش کر رہی ہےجو کہ اپنی ذات اور قدرت میں لامحدود ہے۔
English
تنقیدِ تالیف و ترمیمِ نو اور تنقیدِ عالیہ سے کیا مُراد ہے؟