سوال
بائبل دوبارہ جنم لینے کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
جواب
دوبارہ جنم لینے کا لفظی مطلب" پھر سے پیدا" ہونا ہے؛یعنی دوبارہ جنم نئے جسم اور خون پر مشتمل بدن کےساتھ " نئی پیدایش " ہے ۔ زیادہ تر سیاق وسباق میں دوبارہ جنم لینا ایک ایسے عمل کا حوالہ دیتا ہے جس میں موت کے بعد رُوح دوبارہ ایک نئے بد ن میں زمین پر واپس آجاتی ہے ۔ نئے جنم میں " گذشتہ زندگی " کو یادرکھنے کے دعوؤں کا بھی اشارہ ملتا ہے ۔
کچھ مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں کے مطابق نئے/دوبارہ جنم کا عمل ایک سے زیادہ رُوحوں اور جانوں پر مشتمل ہوتا : مثال کے طور پر ایک کتے کی رُوح کسی اور کتے کی حیثیت سے دوبارہ جنم لے سکتی ہے یا ایک انسان کی رُوح ایک گائے کے بدن میں نیا جنم لے سکتی ہے ۔ نئے جنم کو رُوح کی نقل مکانی کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے اورجو رُوح کی ابدیت ،رُوح کی بغیر تخلیق ہوئےموجود ہونے کی فطرت اور رُوح کے " بالغ ہونے " ،بڑھنے ، تبدیل ہونے اور ترقی کرنے کی ضرورت جیسے تصورات پر مشتمل ہے ۔
یقیناً دوبارہ جنم کے بارے میں کوئی " ثبوت " موجود نہیں ہے ۔ جو بھی ثبوت پیش کیا جاتا ہے وہ پوری طرح ذاتی نوعیت کاہوتا ہے :" ڈِیجا وؤ" کے احساسات ، بار بار آنے والے خواب، کسی انسان کو یہ احساس ہونا کہ اُس کی ایک " پرانی رُوح " بھی تھی ، بے بنیاد خوف اور دوسری ثقافتوں اور ادوار سے لگاؤ ہونا یہ وہ تمام بیانات ہیں جن کی کچھ لوگ اس بات کی تصدیق کےطور پر تشریح کرتے ہیں کہ وہ ایک الگ بدن کے ساتھ ایک نئی زندگی جی رہے ہیں ۔
بائبل کی تعلیمات کی روشنی میں نئے /دوبارہ جنم کا تصور اپنی کسی بھی شکل میں مکمل طور پر بے بنیاد ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم ایک بار مرتے اور اس کے بعد عدالت کا سامنا کرتے ہیں ( عبرانیوں 9باب 27آیت)۔ حتیٰ کہ بائبل دُور دُور تک کبھی بھی اس بات کا خیال پیش نہیں کرتی کہ لوگوں کے پاس زندگی جینے کا دوسرا موقع ہے یا وہ مختلف لوگوں یا جانوروں کی حیثیت سے واپس زمین پر آسکتے ہیں ۔گوکہ دوبارہ جنم ہزاروں سالوں سے ایک مشہور عقیدہ رہا ہے لیکن مسیحیت یا یہودیت کے ماننے والوں نے اُسے کبھی قبول نہیں کیا کیونکہ یہ کلامِ مقدس سے متصادم ہے ۔
بائبل مقدس کے کئی حوالہ جات دوسرے جنم کے تصور کی تردید کرتے ہیں ۔ یسوع نے صلیب پر موجود ایک گناہگار ڈاکوسے فرمایا تھا کہ " آج ہی تُو میرے ساتھ فردَوس میں ہو گا" (لوقا 23باب 43آیت) یسوع نے اُسے یہ نہیں کہا تھا کہ" تمہیں زمین پر زندگی بسر کرنے کا ایک اور موقع ملے گا۔" متی 25باب46آیت ہمیں بتاتی ہے کہ موت کے بعد ایماندار ہمیشہ کی زندگی جبکہ غیر ایماندار ہمیشہ کی سزا پاتے ہیں۔ ہم انفرادی طور پر تخلیق کئے جاتے ہیں اور موت کے بعد ہماری شناخت تبدیل نہیں ہوتی (دیکھیں لوقا 9باب 30آیت)۔
کچھ لوگ جو نئے/دوبارہ جنم پر یقین رکھتے ہیں وہ متی 17باب 10-12آیات کی دوبارہ جنم کے تصور کی حمایت کرنے والے ایک بائبلی حوالے کے طور پر نشاندہی کرتے ہیں۔ شاگرد یسوع سےایک عام سکھائی جانے والی پیشن گوئی کے بارے میں پوچھتےہیں کہ ایلیاہ کا مسیح سے پہلے آنا ضرور ہے ( 10 آیت؛ ملاکی 4باب 5آیت) اور یسوع پیشن گوئی میں مذکور"ایلیاہ " کی یوحنا بپتسمہ دینے والے ( متی 17باب 11-13آیات)کے طور پر نشاندہی کرتے ہوئے اُن کے سوال کا جواب دیتا ہے ۔تاہم یسوع یہ نہیں سکھا رہا تھا کہ ایلیاہ یوحنا پبتسمہ دینے والے کے روپ میں دوسرا جنم لے کر آیا ہے ۔ ایک بات تو یہ ہے کہ ایلیاہ مرا نہیں تھا ؛ وہ ایک آتشین رتھ میں آسمان پر اُٹھا لیا گیا تھا ( 2سلاطین 2باب 11آیت)لہذا ایلیاہ کی حقیقی " آمد" دوسرے جنم کی بجائے آسمان سے اترنے کی صورت میں ہوگی ۔ یسوع یوحنا پبتسمہ دینے والے کو " ایلیاہ " اس لیے کہتا ہے کیونکہ وہ " ایلیاہ کی رُوح اور قوت" میں آیا تھا (لوقا 1باب 17آیت) نہ کہ اس وجہ سے کہ وہ اصل میں ایلیاہ تھا ۔ اس کے علاوہ ایلیاہ خود یسوع سے بات کرتے ہوئے ظاہر ہوا تھا (متی 17باب 3آیت)جس سے واضح ہوتا ہے کہ ایلیاہ نے اپنی پہچان تبدیل نہیں کی تھی – وہ یوحنا نہیں تھا ۔ آخری بات یہ کہ اس سے پہلے لوگوں نے یوحنا پبتسمہ دینے والے سے پوچھا تھا کہ آیا وہ ایلیاہ ہے تو اُس نے جواب دیا تھا کہ " مَیں نہیں ہُوں" ( یوحنا 1باب 21آیت)۔
ہندومت ،سکھ مت اور جین مت جیسی ہندوستان کی مذہبی روایات کی اکثریت میں دوسرے جنم پر یقین رکھنا ایک مرکزی عقیدہ ہے ۔ جد ید دور کی بہت سی غیر اقوام بھی دوبارہ جنم کے تصور کو مانتی ہیں اور رُوحانیت کے پیروکاروں کے ساتھ ساتھ نئے دور کی تحریکیں بھی ایسا ہی مانتی ہیں ۔ تاہم مسیحیوں کے لیے اس میں کوئی شک نہیں ہو سکتا کہ دوبارہ/نیا جنم ایک غیر بائبلی تصور ہے جسے ایک جھوٹ کی حیثیت سے مسترد کر دیا جانا چاہیے ۔
English
بائبل دوبارہ جنم لینے کے بارے میں کیا کہتی ہے؟