سوال
خدا ہزار سالہ بادشاہی کے بعد شیطان کو قید سے کیوں چھوڑے گا؟
جواب
مکاشفہ 20باب 7-10آیات " جب ہزار برس پُورے ہو چکیں گے تو شیطان قَید سے چھوڑ دِیا جائے گا۔ اور اُن قوموں کو جو زمین کی چاروں طرف ہوں گی یعنی جوج و ماجوج کو گمراہ کر کے لڑائی کے لئے جمع کرنے کو نکلے گا۔ اُن کا شُمار سمندر کی ریت کے برابر ہو گا۔ اور وہ تمام زمین پرپھیل جائیں گی اور مُقدّسوں کی لشکر گاہ اور عزیز شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیں گی اور آسمان پر سے آگ نازِل ہو کر اُنہیں کھا جائے گی۔ اور اُن کا گمراہ کرنے والا اِبلیس آگ اور گندھک کی اُس جھیل میں ڈالا جائے گا جہاں وہ حیوان اور جھوٹا نبی بھی ہو گا اور وہ رات دِن ابدُالآباد عذاب میں رہیں گے۔"
اِن آیات کو پڑھنے پر ہمیں حیرانی ہوتی ہے کہ " یسوع مسیح کی ہزار سالہ بادشاہی کے اختتام پر خدا شیطان کو کیوں آزاد کرے گا؟" سب سے پہلے ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ بائبل کے کچھ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب ہم جلالی حالت میں داخل ہوئے بغیر یعنی ابدی زندگی کے اِس طرف سے نہیں دے سکے۔ کیونکہ کچھ بھیدوں کو خدا نے صرف اپنی ذات تک محدودرکھنے کا فیصلہ کیا ہے (استثنا 29باب 29آیت؛ رومیوں 11باب 33-36 آیات)۔ اس کے باوجود بحیثیت ایماندار اگر ہم خدا کے کلام، اُس کی مرضی، یا اُس کے طریقوں کے بارے میں کچھ باتوں کو ہر بار سمجھ نہیں سکتے تو بھی ہم اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیشہ وفادار، سچا اور قابل اعتبار ہے اور اِن باتوں کی روشنی میں ہمارا باقی کام یہی ہے کہ ہم جو کچھ سمجھتے ہیں اُس پر فوراً، پوری طرح اور جہاں تک ممکن ہو عمل کریں ۔ حتی ٰ کہ اگر ہم اِس سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ خدا شیطان کو کیوں آزاد کر رہا ہے ہم خدا کے کلام کی مکمل تفہیم کی بنیاد پر کچھ ممکنہ وجوہات اور محرکات تجویز کر سکتے ہیں۔
ہزار سالہ بادشاہی کے آغاز میں صرف ایماندار، کچھ جو مصیبت کے ایام میں سے گزرے ہونگے اور کچھ جو خُداوند کے ساتھ اُس کی دوسری آمد پر واپس آتے آئیں گے زندہ باقی ہوں گے (مکاشفہ 19باب 17-21آیات) ۔ یہ امن کا وہ زمانہ ہو گا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی (یسعیاہ 2باب 4 آیت؛ میکاہ 4باب 3آیت)۔ اپنی تمام مخلوقات پر ایک مہربانہ ِ الٰہی حکمرانی کو قائم کرتے ہوئے خُداوند یسوع داؤد کے تخت پر بادشاہی کرے گا۔ خُداوند یسوع اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ہر انسان کی ہر ضرورت پوری ہومگر گناہ کو اس قدر عام ہونے کی اجازت نہ دے گا جس قدر آج کل کے معاشرے میں پایا ہے (2زبور 7-12آیات؛ مکاشفہ 2باب 26-29آیات؛ 12باب 5آیت؛ 19باب 11-16آیات)۔ ہم "زمین پر آسمان" کے ایسے وقت کا تصور ہی کر سکتے ہیں۔
عظیم مصیبت میں سے گزرنے والے ایماندار فانی ہوں گے۔ وہ ہزار سالہ بادشاہی کے دوران زمین پر بسیں گے اور اُسے پھر سے آباد کریں گے۔ گناہ کے تباہ کُن اثر کے بغیر ہم تصور کر سکتے ہیں کہ ہزار سالہ بادشاہی کے دوران آبادی میں غیر معمولی اور قریباً ناقابل فہم اضافہ ہوگا۔ وہ تمام لوگ جو ہزار سالہ بادشاہی کے دوران پیدا ہوں گے زمین پر مسیح کی بادشاہی کے فوائد اور برکات سے لطف اندوز ہوں گےلیکن وہ بھی گناہ آلودہ فطرت کے ساتھ پیدا ہوں گے اور انہیں بھی مسیح کوشخصی نجات دہندہ اور خداوند کی حیثیت سے قبول کرتے ہوئے آزادانہ طور پر توبہ کرنی اور انجیل پر ایمان لانا ہوگا۔
تاہم ہزار سالہ بادشاہی کے اختتام پر شیطان کو قید سے چھوڑ دیا جائے گا اور وہ لوگوں کی ایک مخصوص تعداد کو جلال کے خُداوند اور اُس کے مقدسین کے خلاف آخری بغاوت میں اپنی پیروی کرنے کے لیے گمراہ کرنے کے قابل ہو گا! ایسا لگتا ہے کہ بنی نو ع انسان بڑی مصیبت کے خاتمے اور ہزار سالہ بادشاہی کے آغاز سے جتنا آگے بڑھتے جائیں گے وہ حقیقت کو اُتنا ہی "کم اہم " سمجھیں گے کہ وہ کتنی اچھی حالت میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ خدا کی بھلائی کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار بھی ہو جائیں ۔ اگرچہ شیطان کے ساتھ بغاوت کرنے والوں کے شمارکو "سمندر کی ریت کے برابر" کہا گیا ہے (مکاشفہ 20باب 7آیت) لیکن پھر بھی وہ اس تعداد کے مقابلے میں بہت کم ہوں گے جو بغاوت نہیں کریں گے ۔ اب بھی یہ رُوحوں کی ایک بڑی تعداد ہوگی جو شیطان کا ساتھ دے گی۔ اخیر وقت میں کیا ہوگا اِس کے بارے میں خدا ہمارے سامنے جو تصویر پیش کرتا ہے اُس کی بلاشبہ ایک بنیادی وجہ اُس گناہ آلودہ فطرت کو عیاں کرتی ہے جو پوری انسانیت کا فطری حصہ ہے(یرمیاہ 17باب 9آیت)۔
مزید برآں جیسا کہ ہزار سالہ بادشاہی کے دوران ظاہرہے خُدا اپنی فطرت کے بارے میں ہمیں کچھ بتانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اُس کا فضل اور بھلائی مسلسل ظاہر ہوتے رہیں گے ۔ لیکن ہزار سالہ بادشاہی کے اختتام پروہ بغاوت کو بالکل برداشت نہ کرے گا ۔ جب ایسا ہو گا تو وہ کچھ رحم نہ کرے گا اور نہ کوئی "دوسرا موقع" دے گا۔ اُس وقت وہ فوراًعدالت کرے گا اور شیطان اور گنہگار انسان کی آخری بغاوت آگ کے شعلوں میں اختتام پذیر ہو گی۔ اس کے بعد مُردوں کی آخری عدالت ہو گی (بڑے سفید تخت کی عدالت، مکاشفہ 20باب 11-15آیات)۔ پس گناہ کے ہر پہلو کے ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانے کے ساتھ ابدیت کا آغاز ہو سکتا ہے ۔
آخر ی بات ، خُدا بالخصوص ایمانداروں کے لیے شیطان کے بارے میں کچھ اہم اسباق پر زوردینے کی کوشش کر رہا ہے۔ پہلا یہ کہ وہ بنی نو ع انسان کا دشمن رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ کیونکہ خدا نے اپنی محبت کو ہمارے لیے مخصوص کر دیا ہے اس سبب سے شیطان ہم سے ایک خاص نفرت رکھتا ہے۔ اپنے زوال کے وقت ہی سے ( یسعیاہ 14باب ؛ حزقی ایل 28باب ) شیطان ایمانداروں کا مخالف رہا ہے اور اُسے درست طور پر تمام بنی نوع انسان کو گمراہ کرنے والے کے طور پر بیان کیا گیا ہے (یوحنا 8باب 44آیت؛ 1یوحنا 2باب 22آیت)۔ وہ انسان کو جو چیز دے سکتا یا جس بات کا وعدہ کر سکتا ہے وہ صرف موت اور تباہی ہے (یوحنا 10باب 10آیت-الف)۔ یہاں شیطان کو ایک حقیقی شکست خوردہ دشمن کے طور پر بھی دکھایا گیا ہےاور اُس کے ساتھ ساتھ اُس کے تمام پیروکاروں کی حتمی سز ایقینی ہے۔ خُدا ہمیں یاد دلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ شیطان ایک مخلوق ہے جو خُدا کے سامنے بے اختیار ہے (2 کرنتھیوں 12باب 7آیت)۔ یہ تمام باتیں شیطان کے حوالے سے مسیح میں ہماری حیثیت کے بارے میں خدا کے کلام پر ایمان رکھنے کے لیے آج کے ایمانداروں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہونی چاہیے (متی 4باب 1-11آیات؛ لوقا 4باب 1-13آیات؛ 1کرنتھیوں 10باب 13 آیت؛ 2کرنتھیوں 4باب 1-7آیات؛ یعقوب 4باب 6-8آیات؛ 1یوحنا 2باب 15-29آیات؛1یوحنا 4با ب 1-3آیات) خصوصاً جب ہم اس عظیم سچائی کو یاد رکھتے ہیں:" جو تم میں ہے وہ اُس سے بڑا ہے جو دُنیا میں ہے"(1یوحنا 4باب 4آیت)۔
English
خدا ہزار سالہ بادشاہی کے بعد شیطان کو قید سے کیوں چھوڑے گا؟