سوال
کیا زیادہ تر جنگوں کی وجہ مذہب ہے ؟
جواب
یقین جانیں کہ تمام انسانی تاریخ کے دوران بہت سی لڑائیاں بظاہر مذہبی وجوہات کی بناء پر لڑی جاتی رہی ہیں جن میں بہت سے مختلف مذاہب ملوث رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مسیحیت میں مندرجہ ذیل لڑائیاں لڑی گئی ہیں ( محض چند ایک کےنام یہ ہیں ):
• صلیبی جنگیں - گیارہویں سے تیرہویں صدی تک کی مہمات کا ایک ایساسلسلہ جن کا مقصد مسلمان حملہ آوروں سے مقدس سرزمین کو واپس حاصل کرنا اور بازنطین کی سلطنت کی مدد کےلیے جانا بیان کیا جاتا ہے ۔
• فرانسیسی مذہبی جنگیں - کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ہیوگنوٹس کے مابین سولہویں صدی کے دوران فرانس میں ہونے والی جنگوں کا ایک سلسلہ۔
• تیس سالہ جنگ – سترہویں صدی کے دوران کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے مابین ایک اور جنگ ہوئی جو موجود ہ جرمنی کے علاقوں میں لڑی گئی تھی۔
یہ فہرست کسی بھی طرح سے مکمل نہیں ہے۔ کوئی شخص مزید اس فہر ست میں چینی شاہی خاندان چِنگ کے خلاف 1850-1864 تک کی بغاوت اور شمالی آئرلینڈ کی مصیبتوں کو بھی شامل کر سکتا ہے۔ اپنی 2000 سالہ تاریخ میں مسیحیت یقینی طور پر بہت سی لڑائیوں کا ایک لازمی جزو رہی ہے۔
اسلام میں جہاد یا "مُقدس جنگ" کا تصور پایا جاتا ہے۔ لفظ جہاد کے لفظی معنی "جدوجہد" ہے لیکن یہ تصور جنگ کو اسلامی سرزمین کی توسیع اور دفاع کے پسِ منظر میں بیان کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پچھلی نصف صدی کے دوران مشرق وسطیٰ میں لگ بھگ مسلسل جاری رہنے والی جنگ نے اس تصور میں یقیناً اہم کردار ادا کیا ہے کہ مذہب بہت سی جنگوں کا سبب ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ پر گیارہ ستمبر کے حملوں کو "عظیم شیطان" امریکہ کے خلاف جہاد کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو(امریکہ ) مسلمانوں کی نظر میں تقریباً مسیحیت کے مترادف ہے۔ یہودی مذہب میں خدا کے حکم سے لڑی جانے والی فتح مندی کی جنگیں جن کا ذکر پرانے عہد نامے (خصوصاً یشوع کی کتاب) میں ہوا ہے وعدے کی سرزمین پر قبضے کےلیے لڑی گئی تھیں ۔
یہ نکتہ پوری طرح واضح ہونا چاہیے کہ مذہب نے انسانی تاریخ کی زیادہ تر جنگوں میں لازمی طور پر اہم حصہ ڈالا ہے۔ تاہم کیا اس بات سے مذہبی ناقدین کا یہ نقطہ ثابت ہوتا ہے کہ مذہب بذات خود جنگ کا سبب ہے؟ اس کا جواب "ہاں" اور "نہیں" دونوں ہے۔ "ہاں" اس لحاظ سے کہ ایک ثانوی سبب کی حیثیت سے مذہب کم از کم سطحی طور پر زیادہ تر لڑائیوں کا محرک رہا ہے۔ تاہم "نہیں" اس لحاظ سے کہ مذہب کبھی بھی جنگ کی بنیادی وجہ نہیں ہے۔
اس نکتے کو ثابت کرنے کےلیے آئیے بیسویں صدی پر نظر ڈالتے ہیں ۔تمام حقائق کے مطابق بیسویں صدی انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ خون آلودہ صدی تھی ۔ دو بڑی عالمی جنگیں جن کا مذہب سے کچھ تعلق نہیں تھا ، یہودیوں کا قتل عام اور اشتراکیت پسندوں کے روس ، چین ، جنوبی ایشیاء اور کیوبا میں انقلابات 50-70 ملین(کچھ لوگوں کا اندازہ 100 ملین سے زیادہ کا ہے ) اموات کی تاریخ پیش کرتی ہیں ۔ ان لڑائیوں اور نسل کشی کے واقعات میں ایک مشترک حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے لحاظ سے یہ واقعات مذہب پر نہیں بلکہ نظریے پر مبنی تھے ۔ ہم بڑی آسانی سے بیا ن کر سکتے ہیں کہ تمام انسانی تاریخ میں مذہب کی بجائے نظریے کی وجہ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں ۔ اشتراکیت پسندوں کا نظریہ دوسرے لوگوں پر حکمرانی کو ضروری قرار دیتا ہے ۔ نازیوں کا نظریہ" کم تر" نسلوں کے خاتمے پر زور دیتا ہے ۔ صرف یہ دونوں نظریات ہی لاکھوں لوگوں کی موت کا سبب بنے ہیں اور مذہب کا ان سے کچھ تعلق نہیں تھا ۔ درحقیقت فطری طور پر اشتراکیت پسندی ایک ملحد نظریہ ہے ۔
مذہب اور نظریہ دونوں ہی جنگ کی ثانوی وجہ ہیں ۔ تاہم ہر طرح کی جنگ کی بنیادی وجہ گناہ ہے ۔ مندرجہ ذیل حوالہ جات پر غور کریں :
"تم میں لڑائیاں اور جھگڑے کہاں سے آ گئے؟ کیا اُن خواہشوں سے نہیں جو تمہارے اعضاء میں فساد کرتی ہیں؟ تم خواہش کرتے ہو اور تمہیں ملتا نہیں۔ خُون اور حسد کرتے ہو اور کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ تم جھگڑتے اور لڑتے ہو۔ تمہیں اِس لئے نہیں ملتا کہ مانگتے نہیں۔ تم مانگتے ہو اور پاتے نہیں اِس لئے کہ بُری نیّت سے مانگتے ہو تاکہ اپنی عیش و عشرت میں خرچ کرو" (یعقوب 4باب 1-3آیات)۔
"کیونکہ بُرے خیال۔ خُونریزیاں۔ زِناکارِیاں۔ حرامکارِیاں۔ چورِیاں۔ جھوٹی گواہیاں۔ بدگوئیاں دِل ہی سے نکلتی ہیں"( متی 15باب 19آیت)۔
"دِل سب چیزوں سے زِیادہ حیلہ باز اور لاعلاج ہے۔ اُس کو کون دریافت کر سکتا ہے؟"( یرمیاہ 17باب 9آیت)۔
"اور خُداوند نے دیکھا کہ زمین پر اِنسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اُس کے دِل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں" ( پیدایش 6باب 5آیت)۔
جنگ کے بنیادی سبب کے طور پر کلام مقدس کی دلیل کیا ہے ؟ یہ ہمارے شریر دل ہی ہیں جو جنگ کے بنیادی سبب ہیں۔ مذہب اور نظریہ وہ عام ذرائع ہیں جن کے وسیلہ ہم اپنے دلوں میں موجود برائی کو عملی شکل دیتے ہیں ۔ جیسا کہ بہت سے ملحدین واضح طور پر کہتے ہیں کہ اگر ہم کسی طرح سے اپنی "مذہب کی غیر عملی ضرورت" کو دور کر سکیں تو ہم کسی حد تک زیادہ پرامن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں مگر ایسی سوچ انسانی فطرت کے بارے میں غلط فہمی کانتیجہ ہے ۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اگر ہم مذہب کو ختم کردیں تو کوئی اور چیز اس کی جگہ لے لے گی اور وہ چیز کبھی بھی مثبت نہیں ہوگی۔ سچائی یہ ہے کہ حقیقی مذہب گناہ آلودہ انسانیت کو روکے رکھتا ہے اور اس کے بغیر برائی اور گناہ انسانیت پر پوری طرح قابض ہو جائیں گے ۔
حتیٰ کہ حقیقی مذہب مسیحیت کے اثر و رسوخ کے باوجود ہم اس موجودہ دور میں کبھی امن نہیں دیکھ پائیں گے۔ دنیا میں کبھی کوئی ایسا دن نہیں گزر ا جب کہیں نہ کہیں لڑائی نہ ہوئی ہو۔ جنگ کا واحد علاج امن کا شہزادہ یسوع مسیح ہے! جب مسیح اپنے وعدے کے مطابق واپس آئے گا تو وہ موجودہ دور کو ختم کر کے ابدی امن قائم کرے گا:
"اور وہ قوموں کے درمیان عدالت کرے گا اور بہت سی اُمّتوں کو ڈانٹے گا اور وہ اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں اور اپنے بھالوں کو ہنسوے بنا ڈالیں گے اور قوم قوم پر تلوار نہ چلائے گی اور وہ پھر کبھی جنگ کرنا نہ سیکھیں گے" ( یسعیاہ 2باب 4آیت)۔
English
کیا زیادہ تر جنگوں کی وجہ مذہب ہے ؟