سوال
مذاہب پُر امن طور پر ایک ساتھ قائم کیوں نہیں رہ سکتے ؟
جواب
اکثر یہ کہا جاتا رہاہے کہ کسی بھی اور چیز کی نسبت سب سے زیادہ جنگیں مذہب کے نام پر کی گئی ہیں۔ اگرچہ یہ دعویٰ مکمل طور پر غلط ہےلیکن بہت سے لوگ اب بھی اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ " مذاہب پُر امن طور پر ایک ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے ؟" مختصر جواب یہ ہے کہ مختلف مذاہب انسانوں کے دِلوں اور رُوحوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ چونکہ ہر مذہب سچائی کے بارے میں ایسے دعوے کرتا ہے جو دوسرے مذاہب کے دعوؤں سے متصادم ہیں اس لیے مذہبی اعتقاد کی اصل نوعیت اختصاصی ہے ۔
ہر مذہب اِن بنیادی سوالات کے بارے میں بات کرتا ہے: انسان کہاں سے آیا، اور وہ یہاں کیوں ہے؟ کیا موت کے بعد زندگی ہے؟ کیا کوئی خدا ہے، اور ہم اُسے کیسے جان سکتے ہیں؟ یہ سوالات کسی انسان کے نظریہ حیات یعنی کسی شخص کے زندگی کے فلسفے کو تشکیل دینے میں مدد کرتے ہیں ۔ جب دو لوگوں کے پاس اِن سوالوں کے مختلف جوابات ہوتے ہیں تو کسی نہ کسی طرح کا تصادم ہونا طے ہے۔ اس میں شامل لوگوں کے لحاظ سے یہ تصادم دوستانہ اختلاف سے لے کر زندگی اور موت کی لڑائی تک کا درجہ اختیار کر سکتا ہے ۔ چونکہ دنیا میں سینکڑوں طرح کے مذاہب پائے جاتے ہیں اور لاکھوں لوگ اپنے نظریہ حیات کو ترتیب دے رہے ہیں لہذا اس بات کا مشاہد ہ کرناآسان ہے کہ چیزیں شدت کیسے اختیار کر سکتی ہیں۔
عموماً جب یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ "مذاہب ایک ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے" تو مرکزی نقطہ مسیحیت ، یہودیت اور اسلام کے درمیان تاریخی لڑائی پر مرکوز ہوتا ہےحالانکہ اکثر دیگر مذاہب بھی اس سوال میں شامل ہوتے ہیں۔ گوکہ عارفانہ مذاہب میں بھی تشدد اور انتہا پسندی پائی جاتی ہے بعض اوقات مشرقی تصوف کی امن پسندی اور روایتی توحید پرستی (مسیحیت، یہودیت، اسلام) کے تشدد کے درمیان ایک فرق کیا جاتا ہے ۔ تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے اس بات کی تصدیق ہو جائے گی کہ ہر مذہب کی اپنی نوعیت کی انتہا پسندی ہے اور یوں ہر مذہب تشدد کے الزام میں اپنا حصہ ڈالتا ہے ۔ غور طلب اہم سوال یہ ہے کہ کیا خونریزی کو کسی مذہب کی بنیادی تعلیمات سے منسوب کیا جا سکتا ہے یاکیا یہ اُن عقائد کا نتیجہ ہے جن کو توڑ مڑور کر استعمال کیا جاتا ہے۔
مسیحیت کو اکثر یسوع مسیح کے نام پر کئے جانے والے ظلم و ستم کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ صلیبی جنگیں (1096-1272)، بدعت کو دریافت کرنے اور اُسے کچلنے کے لیے رومن کیتھولک چرچ کی ایک پرانی عدالت (1200-1800) اور فرانسیسی مذہبی جنگیں (1562-1598) اس کی عام مثالیں ہیں۔ اگرچہ یہ تمام واقعات رومن کیتھولک چرچ کی سرپرستی اور اِس کی منظوری سے انجام پائے تھے پھر بھی یہ یسوع مسیح کی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی تھی ۔ درحقیقت بدعت کو دریافت کرنے اور اُسے کچلنے کے لیے رومن کیتھولک چرچ کی سخت اور طویل عدالتی تحقیقات اور فرانسیسی مذہبی جنگیں دونوں ہی اُن مسیحیوں کے خلاف کیتھولک نظریا ت کے حامیوں کے حملے تھے جو کیتھولک چرچ کے عقائد اور مشق سے متفق نہیں تھے۔ اس تاریخ کو لکھتے ہوئے،Noah Webster نے کہا کہ "یورپ کے کلیسیائی بااختیار ادارے جو جابرانہ حکومتوں کی حمایت کرتے ہیں مسیحی مذہب نہیں بلکہ اُس کا غلط استعمال اور بدعنوانی ہیں"۔
جب خداوند یسوع اور رسولوں کی تعلیمات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مسیحیوں سےتوقع کی جاتی ہے کہ وہ امن کے ساتھ زندگی بسر کریں ۔ رومیوں 12باب 14اور 18آیت بیان کرتی ہیں کہ" جو تمہیں ستاتے ہیں اُن کے واسطے برکت چاہو۔ برکت چاہو۔ لَعنت نہ کرو۔ جہاں تک ہو سکے تُم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میل مِلاپ رکھّو"۔ خداوند یسوع نے متی 5باب 39آیت میں فرمایا کہ "شرِیر کا مُقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دُوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے" ۔ پطرس رسول نے لکھا کہ " بدی کے عِوض بدی نہ کرو اور گالی کے بدلے گالی نہ دو بلکہ اِس کے برعکس برکت چاہو کیونکہ تُم برکت کے وارِث ہونے کے لئے بُلائے گئے ہو "(1پطرس 3باب 9آیت)۔
یہودیت پر تشدد کو فروغ دینے کا الزام لگایا جاتا ہے اس کے باوجود پوری تاریخ میں یہودی دو ہزار سال سے زیادہ عرصے سے ایذارسانی کو برداشت کرتے آرہے ہیں۔ ہر اُس ملک میں جہاں وہ رہے چکے ہیں اُنہیں بدنام کیا گیا اور ستایا گیا حالانکہ وہ امن سے رہتے اور دوسروں کو فوائد اور خدمات فراہم کرتے تھے۔ کچھ لوگ پرانے عہد نامے کے اُن حوالہ جات کی طرف اشارہ کریں گے جن میں یہودیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ دوسری قوموں کو نیست کر دیں اور دعویٰ کریں گے کہ یہ یہودیت کے پرتشدد خیالات کو ثابت کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ خدا نے اپنے لوگوں کو بت پرستی میں پڑنے سے بچانے کے لیے اُنہیں حکم دیا کہ وہ موعودہ سرزمین کے باشندوں کا صفایا کر دیں (استثنا 7باب 1-5آیات)، اُس نے انہیں یہ بھی حکم دیا کہ "تُو مُسافِر کو نہ تو ستانا نہ اُس پر سِتم کرنا "( خروج 22باب 21آیت )۔ اور اُس نے صرف یہودیوں کونہیں بلکہ سب کو دعوت دی کہ اُس پر ایمان لائیں اور نجات پائیں (یسعیاہ 45باب 22آیت ؛ رومیوں 10باب 12آیت ؛ 1 تیمتھیس 2باب 4آیت )۔ خدا کا مقصد یہودیوں کے وسیلہ سے تمام قوموں کو برکت دینا ہے (پیدایش 12باب 3آیت ؛ یسعیاہ 49باب 6آیت )۔ یہودی مذہب لوگوں کو سکھاتا ہے کہ انسان "اِنصاف کرے اور رحم دِلی کو عزِیز رکھّے اور اپنے خُدا کے حضُور فروتنی سے چلے؟" (میکاہ 6باب 8آیت )۔
اسلام پر بھی تشدد کا الزام لگایا جاتا رہا ہے اور حالیہ برسوں میں بہت سے لوگوں نے اسلامی انتہا پسندی اور "امن کے مذہب" جیسا کہ بعض اوقات اسلام کہلاتا ہے کے درمیان فرق کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کے بہت سے پیروکار پرامن ہیں لیکن یہ بھی واضح ہے کہ اسلام کی بنیاد ہی تشدد پر مبنی ہے۔ اسلام کے بانی اور پیغمبر (570-632) کی پرورش مکہ شہر میں ہوئی اور اُس نے 40 سال کی عمر میں اپنی وحیّوں کی تبلیغ شروع کی۔ لیکن جب کچھ قبائل نے اُس کی مخالفت کی تو اس نے اپنے پیروکاروں کی ایک ایسی وحشیانہ تحریک میں قیادت کی جو اُن قبائل کو شکست دینے اور اُن کامذہب تبدیل کرنے پر مشتمل تھی۔ بہت سی وحیاّں مسلمانوں کو اُن لوگوں کو قتل کرنے کی ترغیب دینے کے لیے نازل ہوئیں جو ایمان نہیں لائے تھے (سورۃ 2 آیت 191 ؛ سورۃ 4آیت 74؛ سورۃ 8آیت 12) اور یہی وہ بنیادی طریقہ ہے جس کے ذریعے اسلام اپنی پوری تاریخ میں پھیلا ہے۔ جب امریکہ شمالی افریقی مسلم بحری قذاقوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں تھا تو ریاست کے سیکرٹری ٹموتھی پکرِنگ نے کہا " اِس وحی میں اُن کے لیے مایوس کن لڑائی کے لیے طاقتور ترغیب یہ ہے کہ مسیحیوں کے ساتھ جنگ اُن کی رُوحوں کی نجات کی ضمانت ہو گی اور اِس مذہبی فریضے کی تعمیل میں اُنہیں بڑا دنیاوی فائدہ بھی حاصل ہوگا"۔اُن مسیحی انتہا پسندوں کے برعکس جنہوں نے اپنے تشدد کے جواز کے لیے کلامِ مقدس کو واضح طور پر توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے مسلم انتہا پسند اپنے اعمال کی حمایت کے لیے اپنے بانی کی واضح تعلیم اور عمل کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔ اسلام میں اعتدال پسند لوگوں کوتشدد کی چشم پوشی کرنے والی آیات کی وضاحت کرنی پڑتی ہے۔
ایک لفظ: گناہ اس وجہ کا خلاصہ کر سکتا ہے کہ مذاہب پُر امن طور پر ایک ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے۔ چونکہ گناہ تمام آدمیوں کو متاثر کرتا ہے اس لیے مذہبی سیاق و سباق میں بھی لڑائی کا رجحان بڑھ سکتا ہے۔ اگرچہ معاشرے کے لیے مختلف مذاہب کے یکساں مثبت فائدے ہوسکتے ہیں لیکن تمام مذاہب برابر نہیں ہیں۔ صرف مسیحیت ہی انسان کے دل کو بدلنے کے وسیلہ سے گناہ کے مسئلے کو حل کرتی ہے۔ " اِس لئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلُوق ہے۔ پُرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہو گئِیں "(2 کرنتھیوں 5باب 17آیت )۔
English
مذاہب پُر امن طور پر ایک ساتھ قائم کیوں نہیں رہ سکتے ؟