سوال
تبادلاتی علمِ الہیات کیا ہے؟
جواب
تبادلاتی علمِ الہیات (جسے سُپر سیَشن اِزمsupersessionismبھی کہتے ہیں) یہ نظریہ ہے کہ مسیحیت نےنہ صرف یہودیت کی جگہ لے لی ہے بلکہ خدا اور اسرائیل کے مابین اُس کے منتخب لوگوں ہونے کا عہد بھی منسوخ ہو گیا ہے۔ یعنی بنیادی طور پر یہ علمِ الہیات یہ تعلیم دیتا ہے کہ خُدا کے منصوبے میں کلیسیا نے اسرائیل کی جگہ لے لی ہے۔ تبادلاتی علمِ الہیات کے ماننے والوں کا ایمان ہے کہ یہودی اب خُدا کے چُنے ہوئے لوگ نہیں رہےاورنہ ہی اسرائیل کے مستقبل کے تعلق سے خدا کے کوئی خاص منصوبے ہیں ۔ کلیسیا اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے لحاظ سے پائے جانے والا مختلف نظریات یہ ہیں: کلیسیا نے اسرائیل کی جگہ لے لی ہے (تبادلاتی علمِ الہیات )؛ کلیسیا اسرائیل کی توسیع ہے (عہدی علمِ الہیات )؛ کلیسیا مکمل طور پر اسرائیل سے مختلف اور الگ ہے (نظریہ ادواریت اور پری ملینیل ازم)۔
تبادلاتی علمِ الہیات سکھاتا ہے کہ اسرائیل اب خدا کے منصوبے میں شامل نہیں ہے۔ اور کیونکہ اسرائیل کی جگہ خدا نے کلیسیا کو اپنے لوگوں کے طور پر منتخب کرلیا ہے اِس لیے بائبل میں اسرائیل کے حوالے سے جتنے وعدے پائے جاتے ہیں وہ اب اسرائیل قوم میں پورے ہونے کی بجائے کلیسیا میں پورے ہوں گے۔ اسرائیل کی برکات اور موعودہ سرزمین میں اس کی بحالی سے متعلق پیشن گوئیاں اب رُوحانی یا مجازی طور کلیسیا کے لئے خُدا کی برکات کے وعدوں کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ تاہم اِس نظریے میں کچھ مشکلات پائی جاتی ہیں جیسا کہ صدیوں سے یہودیوں کا قائم رہنا اور خاص طور پر اسرائیل کی موجودہ ریاست کی بحالی بائبلی لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے ۔ اگر خُدا نے اسرائیل کو ردّ کر دیا ہے اور یہودی قوم کے لئے کوئی مستقبل نہیں تو پچھلے دو ہزار سالوں سے یہودیوں کو تباہ کرنے کی بہت سی کوششوں کے باوجود یہودیوں کی معجزانہ بقا ءکی ہم کیا وضاحت کریں گے ؟ کیا اس کے بارے میں ہمارے پاس کوئی دلیل ہے کہ اسرائیل جو 1900 سالوں سے غیر موجود ہونے کے باوجود اب 20 ویں صدی میں اچانک ایک قوم کے طور پر پھر اُبھر آیا ہےآخر اِس کی کیا وجہ ہے ؟
کلیسیا اور اسرائیل کے الگ الگ ہونے کا نظریہ نئے عہد نامہ میں واضح طور پر سکھایا گیا ہے ۔ بائبل کے لحاظ سے بات کی جائے تو کلیسیا اور اسرائیل ایک دوسرے سے الگ ہیں اور کلیسیا اور اسرائیل کی اصطلاحات کبھی بھی اُلجھن کا باعث نہیں ہوئیں اور نہ ہی کبھی ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال کی گئیں ہیں ۔ ہم کلامِ مقدس میں سے سیکھتے ہیں کہ کلیسیا مکمل طور پر ایک نئی جماعت ہے جو پِنتکُست کے دن معرضِ وجود میں آئی اور جو اپنے آسمان پر اُٹھائے جانے کے دن تک قائم رہے گئی (افسیوں 1باب 9-11 آیات ؛ 1تھسلنیکیوں 4باب 13-17آیات)۔ کلیسیا کا اسرائیل کی برکات اور لعنتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ موسوی عہد کے وعدے، معاہدے اور انتباہات صرف اسرائیل کے لئے معتبر تھے۔ پراگندگی کے گزشتہ دو ہزار سالوں میں اسرائیل کو خُدا کے منصوبے میں عارضی طور پر الگ رکھا گیا ہے (دیکھیں رومیوں11باب)۔
تبادلاتی علمِ الہیات کے برعکس نظریہ ادواریت سکھاتا ہے کہ کلیسیا کے آسمان پر اُٹھائے جانے کے بعد (1تھسلنیکیوں 4باب 13-18آیات ) خُدا اسرائیل کو اپنے منصوبے کے بنیادی کردار کے طور پر بحال کرے گا۔ اُس وقت کا پہلا بڑاواقعہ عظیم مصیبت کا دور ہو گا (مکاشفہ 6- 19ابواب)۔ مسیح کو ردّ کرنے کی وجہ سے دُنیا کی عدالت کی جائے گا اور اس دوران اسرائیل کو عظیم مصیبت کے دکھوں کے وسیلہ سے مسیح کی آمدِ ثانی کے لئے تیار کیا جائے گا۔ عظیم مصیبت کے اختتام پر جب مسیح زمین پر واپس آئے گاتو اُس وقت اسرائیل اُسے قبول کرنے کے لئے بالکل تیار ہو گا۔ اسرائیل کا بقیہ جو عظیم مصیبت کے دور میں بچ جائے گا وہ نجات پائے گا اور خُداوند یروشلیم کو دارالحکومت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنی زمینی بادشاہت کو قائم کرے گا۔ یسوع مسیح کی زمینی بادشاہت میں اسرائیل نمائندہ قوم ہو گی اور تمام قوموں کی نمائندگی کرتے ہوئے اسرائیل یسوع مسیح بادشاہ کو جلال دینے اور اُس کی پرستش کرنے کے لئے یروشلیم میں آئے گی۔ کلیسیا آسمان سے مسیح کے ساتھ واپس زمین پر آئے گی اور مسیح کے ساتھ ایک ہزار سالہ بادشاہی کرے گی (مکاشفہ20باب 1- 5آیات)۔
پرانا اور نیا عہد نامہ دونوں ہی اسرائیل کے لئے خُدا کے منصوبےکے حوالے سے پری ملینیل/نظریہ ادواریت کی تفہیم کی حمایت کرتے ہیں۔ مکاشفہ 20باب 7آیات میں پری ملینیل ازم کے نظریے کے لئے سب سےواضح حمایت پائی جاتی ہے جس میں چھ بار کہا گیا ہے کہ مسیح کی بادشاہی ایک ہزار سال تک جاری رہے گی۔ عظیم مصیبت کے دور کے بعد خُداوند واپس آئے گا اور بنی اسرائیل میں اپنی بادشاہی قائم کرے گا ۔ مسیح پوری زمین پر حکومت کرے گااور بنی اسرائیل تمام قوموں کی رہنما ہو گی ۔ کلیسیا حقیقی طور پر مسیح کےساتھ ایک ہزار سال تک بادشاہی کرے گی۔ خُدا کے منصوبہ میں کلیسیا نے اسرائیل کی جگہ ہرگز نہیں لی۔ ہوسکتا کہ خُدا نے فضل کے دور میں خصوصی طور پر اپنی توجہ کلیسیا پر مرکوز کی ہو لیکن خُدا اسرائیل کو بھولا نہیں ہے بلکہ ایک دن آئے گا جب خدا بطور قوم اسرائیل کے مطلوبہ کردار کے لیے اِسے بحال کرے گا کیونکہ اسرائیل خدا کی چنیدہ قوم ہے (رومیوں 11باب)۔
English
تبادلاتی علمِ الہیات کیا ہے؟