سوال
سائنس پر یقین رکھنے والے لوگ نظریہ تخلیق کے اتنے خلاف کیوں ہیں ؟
جواب
"سائنس" اور "سائنسی برادری" جیسی اصطلاحات میں فرق کرنا بہت ضروری ہے۔ سائنس ایک ایسا نظام ہے جس کا تعلق مشاہدے، تجربات اور پھر اُن کے بارے میں وضاحت پیش کرنے کے ساتھ ہے۔ سائنسی برادی ایسے زندہ انسانی افراد پر مشتمل ہے جو اِس نظم و ضبط میں حصہ لیتے ہیں۔ یہاں پر فرق کو مدِ نظر رکھنا بہت زیادہ ضروری ہے کیونکہ سائنس اور نظریہ تخلیق کے درمیان کو خاص منطقی تضاد موجود نہیں ہے۔ سائنس ایک قسم کے مطالعے کے لیے ایک عمومی اصطلاح ہے جبکہ نظریہ تخلیق ایک فلسفہ ہےجس کا اطلاق حقائق کی تشریح پر ہوتا ہے۔ سائنسی برادری جیسا کہ آجکل موجود ہے فطرت پرستی کو اپنا ترجیحی فلسفہ مانتی ہے، لیکن اِس کی کوئی واضح وجہ نہیں ہے کہ فطرت پرستی کو نظریہ تخلیق پر کھلم کھلا ترجیح دی جائے۔
عمومی طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ نظریہ تخلیق "غیر سائنسی" ہے۔ یہ بات جزوی طور پر سچ ہے کیونکہ نظریہ تخلیق میں کچھ مفروضے شامل ہیں جن کی جانچ پڑتال نہیں کی جا سکتی، اُنہیں ثابت نہیں کیا جا سکتا اور اُنہیں جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا۔ تاہم نظریہ فطرت پرستی کو بھی ایسی ہی پریشانی لاحق ہے کیونکہ یہ نظریہ بھی ناقابلِ آزمائش ، ناقابلِ عمل ہونے کے ساتھ ساتھ ناقابلِ تردید فلسفہ ہے۔ سائنسی تحقیق کے اندر دریافت ہونے والے حقائق بس حقائق ہی ہوتے ہیں۔ حقائق اور تشریحات دو مختلف چیزیں ہیں۔ موجودہ سائنسی برادری عمومی نظریہ تخلیق کو مسترد کرتی ہےا ور یوں وہ اِس نظریے کو "غیر سائنسی" قرار دیتی ہے۔ سائنسی برادری کی طرف سے نظریہ فطرت پرستی کو قابلِ تشریح فلسفے کے طور پر نظریہ تخلیق پر ترجیح دینا مضحکہ خیز بات اور ستم ظریفی ہے کیونکہ اُن کے حساب سے دیکھا جائے تو فطرت پرستی بھی اُسی قدر غیر سائنسی فلسفہ ہے جس قدر غیر سائنسی وہ نظریہ تخلیق کو خیال کرتے ہیں۔
سائنس کی طرف سے فطرت پرستی کی طرف اِس رجحان کی بہت سی وجوہات ہیں۔ نظریہ تخلیق کے اندر ایک مافوق الفطرت ہستی کی مداخلت کا تصور موجود ہے جبکہ سائنس ٹھوس اور طبعی چیزوں پر ہی کام کرتی ہے۔ اِس لیے سائنسی برادری کے کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ نظریہ تخلیق "رخنوں کے خُدا" جیسے کسی مخمصے کو پیدا نہ کر دے، جہاں پر سائنسی سوالات کو یہ کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ "خُدا نے یہ کیا ہے۔"ابھی سائنس کہتی ہے کہ کسی تجربے سے ایسا ثابت نہیں ہوا۔ سائنسی تاریخ کے چند بڑے نام نظریہ تخلیق کے کٹر پن تک حامی تھے ۔ خُدا کی ذات پر اُن کے ایمان نے اُنہیں یہ کھوجنے کی تحریک دی کہ خُدا نے یہ سب کچھ کیسے کیا؟ اِن ناموں میں پاسکل، میکسویل اور کیلون شامل ہیں۔ دوسری طرف فطرت پرستی سے غیرمعقول وابستگی سائنسی دریافت کو بگاڑ سکتی ہے۔ ایک فطرت پسندانہ فریم ورک اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ سائنسدان اُن نتائج کو نظر انداز کریں جو پہلے سے قائم کردہ نمونوں کے مطابق نہیں۔ یعنی جب نئے اعداد و شمار کا فطری نقطہ نظر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تو اُسے غلط اور مسترد تصور کیا جاتا ہے۔
نظریہ تخلیق کے لیے مختلف مذہبی تاثرات پائے جاتے ہیں۔ سائنس بھی اُسی حد تک خارجی ہے جس حد تک وہ لوگ ہیں جو اِس میں حصہ لیتے ہیں۔ اور وہ لوگ کسی بھی دوسرے شعبے کے لوگوں کی طرح تعصب کے ماتحت ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو خالصتاً ذاتی "اخلاقی " وجوہات کی بناء پر فطرت پرستی کے حق میں نظریہ تخلیق کو مسترد کرتے ہیں۔ درحقیقت ایسے لوگوں کی تعداد شاید اُس سے کہیں زیادہ ہے جس کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگ جو خُدا کے تصور کو مسترد کرتے ہیں، بنیادی طور پر ایسا اِس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے ذہن میں فرض کردہ پابندی اور ناانصافی سے متفق نہیں ہوتے۔ اور یہ بات لیبارٹری کے کوٹ پہننے والوں کے حوالے سے بھی اُتنی ہی سچی ہے جتنی یہ عبا نما حفاظتی لباس پہن کر سائنس کے شعبوں میں کام کرنے والے دیگر لوگوں کے بارے میں سچی ہے۔
اِسی طرح سے سائنسی برادری کے غیر دوستانہ رویے نے بھی نظریہ تخلیق پر بہت زیادہ اثر ڈالا ہے۔ سائنس صدیوں تک نظریہ تخلیق کے حامی شراکت داروں سے مستفید ہوئی ہے؛ اِس کے باوجود آج سائنسی برادری بڑے پیمانے پر ہر اُس شخص کے ساتھ معاندانہ اور مکروہ رویہ اختیار کرتی ہے جو فطرت پسندی کا نقطہ نظر اختیار نہیں کرتا۔ نظریہ تخلیق کے نظریات اور عمومی طور پر مذہب کے خلاف یہ کھلی دشمنی ایسے نظریات رکھنے والے افراد کو تحریک دیتی ہے کہ وہ سائنسی مطالعے سے گریز کریں۔ اور یوں لوگ اکثر اپنی تضحیک کے خوف سے خاموش رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اِس طرح سے ، سائنسی برادری نے معاشرے کے ایک خاص طبقے کو نیچا دکھاتے ہوئے اُنہیں "باہر دھکیلنے" کی کوشش کی ہے اور پھر یہ دعویٰ کرنے کی جرات کی ہے کہ اُن کی صفوں میں نظریہ تخلیق کے حامیوں کی تعداد کی کمی نظریہ فطرت پرستی کے سائنسی لحاظ سے برتر ہونے کا ثبوت ہے۔
عام طور پر نظریہ تخلیق اور مذہب کے خلاف سائنسی برادری کی دشمنی کی سیاسی وجوہات بھی ہیں۔ مسیحیت کسی بھی دوسرے مذہبی نظام سے بڑھکر ہر ایک انفرادی انسانی زندگی کو بے پناہ قابلِ قدر خیال کرتی ہے ۔ اِس سے سائنسی برادری کے ساتھ کشیدگی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب زندگی کے بارے میں یہ فکر مندی سائنسی عمل کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔ مسیحی اقدار ایسے تجربات یا مقامات پر رکاوٹ کا کام کرتی ہیں جہاں لوگوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور تجربات کی بنیاد پر انسانی زندگی کو تباہ کیا جاتا ہے۔ اِس کی مثالوں میں ایمبریونک سِٹم سیل ریسرچ، اسقاطِ حمل اور معانتی خودکشی شامل ہیں۔ دوسرے معاملات میں مسیحی اقدار لا دین سرگرمیوں سے اُس وقت ٹکراتی ہے جب سائنس بہت ساری گناہگار یا گناہ آلود سرگرمیوں کو آسان بنا کر اُنہیں فروغ دینے کی کوشش کرتی ہے۔ اگرچہ فطرت پسند سائنسدان اِس چیز کو ایک غیر ضروری رکاوٹ کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن اُنہیں اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جب سائنسی تحقیق کی جاتی ہے تواُس دوران اگر اخلاقیات یا ضمیر، شعور کی کوئی پرواہ نہ کی جائے تو کیا ہوتا ہے۔ اِس خیال کی بازگشت جراسک پارک نامی فلم کے اندر اداکار جیف گولڈ بلم کے کردار کی طرف سے بولے گئے الفاظ میں ملتی ہے۔ اُس نے کہا کہ "تمہارے سائنسدان اِس بات میں اتنے مصروف تھے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں یا نہیں، اور وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ سوچنے کے لیے نہیں رُکے کہ اُنہیں ایسا کرنا چاہیے کہ نہیں۔"
سائنس برادری اور مذہبی برادری کے درمیان اقتدار یا طاقت کے حوالے سے بھی مقابلہ بازی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے سائنس اور نظریہ تخلیق کے حامیوں کے درمیان اضافی کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ جیسا کہ کچھ نمایاں تشکیک پرست سائنسدانوں نے بھی اعتراف کیا ہے کہ سائنسی برادری میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو لاشعوری طور پر "لادینیت" کے مذہبی پیشوا کے طور پر پیش کرے۔ اور اُن کے مطابق اِس لادین پیشوائی کو حیرت انگیز اور بہت ہی عمیق علم حاصل ہے کہ عام لوگوں کو نجات کے لیے کس چیز کی ضرورت ہے اور اُن کی طرف سے کہی گئی کسی بات کے تعلق سے کوئی بھی بیرونی شخص پوچھ گچھ نہیں کر سکتا۔ واضح الفاظ میں بات کی جائے تو مذہبی رنگ میں رنگے ہوئے خیالات جیسے کہ نظریہ تخلیق سائنسی برادری کے اِس دعوے پر اثر انداز ہوتے ہیں کہ فطرت پرستوں کو اِس کائنات کے بارے میں اعلیٰ ترین علم حاصل ہے۔
اگرچہ سائنسی برادری اور نظریہ تخلیق کے درمیان کشیدگی کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن اِس بات کی بھی بہت سی وجوہات ہیں کہ اُنہیں پُر امن طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے قابل ہونا چاہیے۔ فطرت پرستی کے حق میں نظریہ تخلیق کو مسترد کرنے کی کوئی منطقی اور جائز وجوہات نہیں ہیں جیسا کہ سائنسی برادری نے کیا ہے۔ نظریہ تخلیق دریافت کو روکتی نہیں ہےجس کا ثبوت سائنس کے میدان کے بڑے بڑے سورما ہیں جو نظریہ تخلیق پر یقین رکھتے تھے۔ نظریہ تخلیق کے ماننے والوں کے خلاف تضحیک آمیز رویے نے بہت سے شعبوں میں انتہائی قابل اور رضا مندی سے کام کرنے کے خواہاں ذہنوں کی تعداد کو کم کر دیا ہے۔ نظریہ تخلیق کے پاس سائنس اور سائنسی برادری کے سامنے پیش کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ جس خُدا نے اِس کائنات کو بنایا ہے اُس نے اِس کے ذریعے سے خود کو انسانوں پر ظاہر بھی کیا ہے (19 زبور 1 آیت)؛ جس قدر زیادہ ہم اُس کی کائنات کے بارے میں ہم سیکھتے ہیں اُسی قدر زیادہ اُسکے نام کو جلال ملتا ہے!
English
سائنس پر یقین رکھنے والے لوگ نظریہ تخلیق کے اتنے خلاف کیوں ہیں ؟