سوال
کیا کاپی رائٹ شُدہ مواد(موسیقی، فلمیں اور سوفٹ وئیر) کو انٹر نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرنا یا چُرانا(فائل شئیرنگ کرنا) گناہ ہے؟
جواب
مواد کو ڈاؤن لوڈ کرنا کبھی بھی اتنا آسان نہیں تھا۔ ماؤس کے کلک– یا فوٹو کاپی یا سکین مشین کے محض ایک بٹن دبانے سے ہم برقی اور تشہیری مواد کی نقل اور تقسیم کر سکتے ہیں۔ آج کل کسی اور کے مواد کی نقل کرنا اور اُس کا استعمال کرنا بہت عام ہے لیکن جب تک ہمیں ایسا کرنے کی اجازت حاصل نہیں ،ایسا کرنا درست نہیں ہے۔
بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ ہمیں اُس حکومت کے قوانین کی پیروی کرنی ہے جس کے ما تحت ہم رہتے ہیں (رومیوں 13باب 1-7آیات)۔ یہ اُن اہم مسائل میں سے ایک ہے جو یہاں داؤ پر لگے ہیں۔ خدا ہمیں اعلیٰ حکام کی اطاعت کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ ہمارے پاس اعلیٰ حکام کی نافرمانی کرنے کے لیے صرف ایک ہی چھوٹ ہے یعنی اُس صورت میں اگر وہ ہم سے خدا کے کسی ایسے حکم کی نافرمانی کرنےکا مطالبہ کریں جسے کرنے کا اُس نے حکم دیا ہے (اعمال 5باب 29 آیت ) ۔کاپی رائٹ/ اشاعتی حق کے قوانین کی وجہ سے مُصور/مُصنف/ناشر کی اجازت کے بغیر اشاعتی حق کے حامل مواد کو ڈاؤن لوڈ، سارق(مواد کی چوری) یا شیئر کرنا قانونی طور پر غلط ہے۔ چونکہ خدا ہمیں قانون کی پابندی کرنے کا حکم دیتا ہے اِس لیے ڈیجیٹل انٹرنیٹ پائریسی (انٹرنیٹ پر کسی کے مواد پر ڈاکہ ڈالنے کا عمل) اُن علاقوں میں گناہ ہے جہاں یہ غیر قانونی ہے۔ سال 2000 کے آس پاس نیپسٹر(Napster) نامی ایک ویب سائٹ نے انٹرنیٹ اشاعتِ حق/کاپی رائٹ کے اس مسئلے کا دروازہ کھولا اور اِس کے بعد اِسے قانونی طور پر عدالتی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے سائٹ بند ہو گئی اور اِسے دیوالیہ پن کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ انٹرنیٹ پائریسی کے نتائج واضح ہیں لیکن اب بھی ایسی لاتعداد فائل شیئرنگ سائٹس موجود ہیں جو لوگوں کو اشاعتی حق /کاپی رائٹ کے حامل مواد کی سارقی نقل کوجاری رکھنے کے قابل بناتی ہیں۔ عدالتی کاروائیوں کے پیش ِ نظر اِن میں سے بہت سی سائٹس موسیقی اور فلموں کو ڈاؤن لوڈز کرنے کے لیے فیس کی ادائیگی کا تقاضا کرتی ہیں اور اِن ڈاؤن لوڈ کی ہوئی فائلوں کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کے عمل کو محدود کرتی ہیں ۔
لیکن اشاعتی حق/کاپی رائٹ کے حامل مواد کو نقل کرنے اور شیئر کرنے کا معاملہ کسی قانونی مسئلے سے بڑھ کر ہے۔ اِس میں ادبی اور اخلاقی تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔ اجازت کے بغیر کسی اور کی کوئی چیز لینا چوری ہے اور عقلی لحاظ سے چیز پھر بھی اُسی اصل مالک کی ملکیت ہے۔ وہ نغمہ نگار جس نے گانا تیار کرنے کے لیے کام کیا ہے اُس نے اُس کے لیے معاوضہ حاصل کیاکیونکہ "مزدور اپنی مزورری کا حقدار ہے " (لوقا10باب7 آیت)۔ جب ایک گانا نقل کر کے کسی اور کو دیا جاتا ہےتو گانے کی ایک عدد فروخت کم ہوجا تی ہے جو ہو سکتی تھی۔اور یوں فنکار اپنے اشاعتی حق کے عوض اپنے معاوضے کے اُس چھوٹے سے حصے کا نقصان اُٹھاتا ہے۔ یہی اصول کسی فلم کی نقل کرنے، ڈرامے کی تحریر کی فوٹو کاپی کرنے، سنڈے سکول کے نصاب کو شیئر کرنے اور سافٹ ویئر ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے بھی درست ہے۔
کسی مسیحی کو کبھی بھی دوسروں کی ملکیت کو چوری کرنے کی خواہش نہیں رکھنی چاہیے - لیکن جب ہم ناشر کی اجازت کے بغیر گانے ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔ کسی مسیحی خدمتی ادارے کو کبھی بھی کسی کو اپنے لیے مفت کام کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے لیکن جب کوئی کلیسیا بناء اجازت کے سکرپٹ یا میوزک شیٹ کی نقل کرتی ہے تو ایسی ہی صورتحال ہوتی ہے ۔ قانونی اور اخلاقی طور پر ہمیں اشاعتی حق/ کاپی رائٹ کے قوانین کی پیروی کرنی چاہیے اور اُن چیزوں کے تخلیق کاروں کو مناسب معاوضہ دینا چاہیےجنہیں ہم استعمال کرتے ہیں۔
English
کیا کاپی رائٹ شُدہ مواد(موسیقی، فلمیں اور سوفٹ وئیر) کو انٹر نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرنا یا چُرانا(فائل شئیرنگ کرنا) گناہ ہے؟