سوال
فطری/حقیقی/بنیادی گناہ کیا ہے؟
جواب
"فطری گناہ" (ابتدائی/بنیادی گناہ) کی اصطلاح آدم کے اُس نافرمانی کے گناہ کی جانب اشارہ کرتی ہے جو اُس نے نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے کی صورت میں کیا اور جس گناہ کا اثر باقی نسلِ انسانی پر مسلسل قائم ہے ۔ فطری گناہ کی تعریف کچھ اس طرح کی سکتی ہے " وہ اخلاقی بگاڑ جو آدم کے گناہ کے نتیجے کے طور پر ہماری فطرت میں شامل ہو چکا ہےجس کی وجہ سے گناہ آلود رجحان پیدا ہوتا ہے جوانسانی رویے میں عادتاً گناہ کی صورت میں سامنے آتا ہے فطری گناہ کہلاتا ہے۔" فطری گناہ کا عقیدہ ہماری اندرونی فطرت اور خدا کی حضور ی میں اِس فطری گناہ کے اثر پر خاص توجہ مرکوز کرتا ہے۔فطری گناہ کے اِس اثر پر غور کرنے کے لئے تین اہم نظریات پائے جاتے ہیں:
پلے جِیئن ازم (Pelagianism)
یہ نظریہ بیان کرتا ہے کہ آدم کا گناہ اُس کی اولاد کی رُوحوں پر اثر انداز نہیں ہوا تھا ۔ آدم اپنے گناہ کی بدولت اپنی اولاد کے سامنے صرف ایک گناہ آلود مثال بنا تھا۔ اس لیے جو لوگ آدم کی گناہ آلودہ فطرت کے نمونے کی پیروی کرتے ہیں وہ بھی اِس فطرت کے زیرِ اثر آ جاتے ہیں ۔ لیکن ا ِس نظریے کے مطابق انسان اس قابل ہے کہ اگر وہ چاہے تو گناہ کرنے سے اپنے آپ کو روک سکتا ہے۔ پلے جیئن ازم اُن بہت سے حوالہ جات کی مخالفت کرتا ہے جو واضح کرتے ہیں کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی (خُدا کی مداخلت کے بغیر)اپنے گناہوں کا غلام ہے اور اُسکے اچھے کام خُدا کی خوشنودی کے حصول کے لئے "مردہ" یا بیکار ہیں (افسیوں 2باب 1-2آیات؛ متی 15باب 18- 19آیات؛ رومیوں 7باب 23آیت ؛ عبرانیوں6باب 1آیت ؛ 9آیت 14آیت)۔
آرمینیت (Arminianism)
اِس عقیدے کے پیروکاروں کا ایمان ہے کہ آدم کا فطری گناہ موروثی طور باقی انسانوں کے اخلاقی بگاڑ اور گناہ آلودہ فطرت کا باعث بنا ہے اور یہ موروثی گناہ ہمیں ایسے ہی گناہ کرنے پر مجبور کرتی ہے جس طرح بّلی کی فطرت اُس سے میاؤں کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔ لہذا انسان کا گناہ کرنا اور بلی کا میاؤں کرنا دونوں فطری عمل ہیں ۔ اِس نظریے کے مطابق انسان خود سے گناہ کرنے سے باز نہیں آ سکتا ؛ خدا کامافوق الفطرت اور قابل عمل فضل جو توبہ سے پہلے نازل ہوتا ہے خوشخبری کے ساتھ مل کر اُس شخص کو مسیح پر ایمان رکھنے کے قابل بنا تا ہے۔ تو بہ سے پہلے نازل ہونے والے فضل کی تعلیم کلام پاک میں واضح طور پر نہیں ملتی۔
کیلون ازم(Calvinism)
فطری گناہ کے بارے میں کیلون کا نظریہ بیان کرتا ہے کہ آدم کے گناہ کے باعث نہ صرف ہمیں گناہ آلودہ فطرت ملی ہے بلکہ خُدا کے حضور ایسا احساس جُرم بھی حاصل ہوا ہے جس کے لئے ہم سزا کے مستحق ہیں۔ فطری گناہ کے ساتھ پیدا ہونا (51 زبور 5آیت) ہماری موروثی گناہ آلودفطرت کا باعث بنا ہے ۔ یہ فطرت ایسی گناہ آلود ہے کہ یرمیاہ 19 باب 9 آیت میں انسانی دِل کو "سب چیزوں سے زیادہ حیلہ باز اور لاعلاج" قرار دیا گیا ہے ۔ گناہ کرنے کی وجہ سے نہ صرف آدم مجرم ٹھہرا تھا بلکہ اُس کے گناہ نے ہماری فطرت کو بھی آلودہ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں ہم بھی آدم کی طرح احساسِ جرم اور اُس کی سزا( موت) کے مستحق ٹھہرے ہیں (رومیوں5 باب 12اور 19آیت)۔اِس بارے میں دو نظریات ہیں کہ آدم کے گناہ کے باعث ہماری فطرت کیوں گناہ آلودہوجاتی ہے۔پہلا نظریہ بیان کرتا ہے کہ نسل ِ انسانی تخم کی صورت میں آدم کے اندر موجود تھی لہذا جب آدم نے گناہ کیا تو مطلب ہم نے گناہ کیا ۔ یہ تصور بائبل کی اِس تعلیم سے کافی ملتا جلتا ہے کہ لاوی (ابرہام کی نسل) نے ابرہام میں ملکِ صدق سالم کے بادشاہ کو دہ یکی دی تھی (پیدایش14باب 20آیت ؛ عبرانیوں7باب 4- 9آیات )حالانکہ لاوی سینکڑوں سال بعد بھی پیدا نہیں ہوا تھا۔ ایک اور اہم نظریہ ہے کہ آدم نے ہمارے نمائندہ کے طور پر زندگی گزاری تھی لہذ اجب اُس نے گناہ کیا تھا تو اُس کے ساتھ ہم بھی مجرم ٹھہرے تھے۔
English
فطری/حقیقی/بنیادی گناہ کیا ہے؟