سوال
گناہ کا غلام ہونے سے کیا مُراد ہے ؟
جواب
رُوحانی لحاظ سے ہر کوئی غلام ہے۔ ہم یا تو گناہ کے غلام ہیں جو ہماری فطری حالت ہےیا ہم مسیح کے غلام ہیں۔ نئے عہد نامے کے مصنفین نے مسیح کے غلاموں کے طور پر اپنے مقام کا خوشی سے اعلان کیا ہے ۔ پولس رسول روم کی کلیسیا کے نام اپنے خط کی ابتدا خود کو " یسوع مسیح کا بندہ" (رومیوں 1باب 1آیت) اور طِطُس کے نام اپنے خط کی ابتدا خود کو "خدا کا بندہ" (طِطُس 1با ب 1آیت ) کہتے ہوئے کرتا ہے ۔ یعقوب رسول بھی اپنے خط کی ابتدا اسی طرح سے کرتا ہے " خُدا کے اور خُداوند یسُوع مسیح کے بندہ یعقُوب کی طرف سے۔۔۔ " (یعقوب 1باب 1آیت)۔ زیادہ تر تراجم اِن آیات میں "خادم" یا" بندے" کے لفظ کو بیان کرتے ہیں لیکن یونانی لفظ doulas کا لغوی مطلب "غلام" ہی ہے۔
یوحنا 8باب 34آیت میں خداوند یسوع بے ایمان فریسیوں سے کہتا ہے"مَیں تم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو کوئی گُناہ کرتا ہے گُناہ کا غلام ہے۔" وہ غلام اور اس کے مالک کی تمثیل کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کو واضح کرتا ہے کہ غلام اپنے مالک کی پیروی کرتا ہے کیونکہ وہ اُس کی ملکیت ہے۔ غلاموں کی اپنی مرضی نہیں ہوتی۔ وہ اصل میں اپنے مالکوں کے پابند ہوتے ہیں۔ جب گناہ ہمارا مالک ہے تو ہم اُس کی مخالفت کرنے سے قاصر ہیں۔ لیکن گناہ کی طاقت پر قابو پانے کے لیے مسیح کی قوت سے ہم " گُناہ سے آزاد ہو کر راست بازی کے غُلام ہو گئے"(رومیوں 6باب 18آیت)۔ ایک بار جب ہم توبہ کے ساتھ مسیح کے پاس آتے اور گناہوں کی معافی پاتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگیوں میں رُوح القدس کے قیام کے وسیلہ سے تقویت بخشی جاتی ہے ۔ یہ اُس کی قدرت ہی سے ہے کہ ہم گناہ کے خلاف مزاحمت کرنے اور راستبازی کے غلام بننے کے قابل بنتے ہیں۔
خُداوند یسوع کے شاگرد اُس کے ہیں اور ایسے کام کرتے ہیں جو اُس کی خوشنودی کا باعث بنتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خُدا کے فرزند اُس کی فرمانبرداری کرتے اور عادتاً کئے جانے والے گناہ سے آزاد زندگی بسر کرتے ہیں ۔ ہم ایسا کر سکتے ہیں کیونکہ خُداوند یسوع نے ہمیں گناہ کی غلامی سے آزاد کر دیا ہے (یوحنا 8باب36آیت )اور یوں ہم گناہ کے باعث سزا ئے موت اور خُدا سے جُدائی کے ماتحت نہیں ہیں۔
رومیوں 6باب 1-23آیات غلام اور اُس کے مالک کے تصور میں اور بھی آگے جاتی ہیں ۔ مسیحی ہونے کے ناطے ہمیں عادتاً کئے جانے والے گناہ کو جاری نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ ہم گناہ کے اعتبار سے مُردہ ہیں ۔ رومیوں 6با ب 4آیت فرماتی ہے کہ چونکہ ہم مسیح کے ساتھ دفن ہوئے اور جی اُٹھے ہیں اس لیے اب ہم اُس بے ایماندار کے برعکس جواَب بھی گناہ کا غلام ہے نئی زندگی میں چلنے کے قابل ہیں ۔ رومیوں 6باب 6آیت مزید کہتی ہے چونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری پر انی انسانیت اُس کے ساتھ مصلوب ہو گئی ہے کہ ہمارا گناہ کا بدن بے کار ہو جائے لہذا ہمیں مزید گناہ کے غلام نہیں رہنا چاہیے۔ اور رومیوں 6باب 11آیت فرماتی ہے کہ ہمیں گناہ کے لحاظ سے خود کو مُردہ اور مسیح یسوع میں خدا کے لحاظ سے زندہ سمجھنا چاہیے ۔
ہمیں خُدا کی طرف سے حکم ہے کہ ہم گناہ کی خواہشات کو مانتے ہوئے اُسے اپنے بدنوں پر بادشاہی کرنے نہ دیں بلکہ ہمیں اپنے آپ کو راستبازی کے ہتھیار کے طور پر خدا کے سامنے پیش کرنا ہے (رومیوں 6باب 12-14آیات)۔ رومیوں 6باب 16-18آیات میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہم اُس کے غلام ہیں جس کی ہم پیروی کرتے ہیں یا تو گناہ کی فرمانبرداری کے وسیلے گناہ کے غلام ہیں یا راستبازی کی فرمانبرداری کی بدولت راستبازی کے۔ ہمیں خُدا کی غلامی کرنی ہے جس سے ہم تقدیس اور ابدی زندگی کی نعمتیں پاتے ہیں۔ ہم ایسا اس لیے کرتے ہیں " کیونکہ گُناہ کی مزدُوری مَوت ہے مگر خُدا کی بخشش ہمارے خُداوند مسیح یسُوع میں ہمیشہ کی زِندگی ہے"(رومیوں 6باب 23آیت)۔
روم کی کلیسیا کے نام خط میں پولس رسول مزید کہتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ گناہ میں زندگی بسر نہ کرنا کتنا مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ وہ مسیح کا پیروکار بننے کے بعد سے اس حالت کے ساتھ جدوجہد کرتا آ رہا تھا ۔ اوراس بات کو جاننا تمام مسیحیوں کے لیے ضروری ہے۔ اب جب کہ ہم گناہ کی سزا سے آزاد ہو چکے ہیں مگر اس زمین پر زندہ رہتے ہوئے ہم اب بھی گناہ کی موجودگی میں رہتے ہیں۔ اور وہ واحد راستہ جس سے ہم گناہ کی طاقت سے آزادہوسکتے ہیں رُوح القدس کی قوت سے ہے جو ایمانداروں کو اُس وقت بخشی جاتی ہے جب ہم مسیح پر ایمان لاتے ہیں (افسیوں 1باب 13-14 آیات) اور رُوح القدس خدا کے بچّوں کی حیثیت سے ہماری میراث کے بیعانہ کے طور پر مسیح میں ہم پر مہر کرتا ہے ۔
ہماری زندگیوں میں رُوح القدس کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جیسے ہم اپنے ایمان میں بڑھتے جاتے اور خُدا سے ہر روز اور بھی زیادہ محبت کرنے لگتے ہیں تو ہمارے پاس گناہ کے خلاف مزاحمت کرنے کی طاقت اتنی ہی بڑھتی جائے گی ۔ رُوح القدس کے کام کے وسیلہ سے ہمیں گناہ کے خلاف مزاحمت کرنے، اُس کی آزمایش میں ہار نہ ماننے اور خدا کے کلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تقویت دی جاتی ہے۔ اس طرح عادتاً کئے جانے والے گناہ ہمارے لیے مزید ناگوار ہو جائیں گے اور ہم خود کو ایک ایسی حالت میں پائیں جب ہم کچھ بھی ایسا کرنا نہیں چاہییں گے جو خُدا کے ساتھ ہماری رفاقت میں رکاوٹ بنے۔
رومیوں 7باب 17آیت – 8باب 2آیت ایمانداروں کے لیے ایک شاندار حوصلہ افزائی ہے کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہاں تک کہ جب ہم سے گناہ سرزد بھی ہو جاتا ہے تو اِس کے باوجود ہم سزا کے ماتحت نہیں کیونکہ ہم مسیح یسوع میں ہیں۔ اور 1 یوحنا 1باب 9آیت ہمیں یقین دلاتی ہے کہ بطور مسیحی جب ہم گناہ کریں تو اگر ہم ہر روز خُداوند کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمیں اُن گناہوں سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے تاکہ ہم اُس کے ساتھ صحیح تعلق میں زندگی بسر کرنا جاری رکھ سکیں۔ افسس کی کلیسیا کے نام تمام خط میں پولس رسول ہمیں نو رکے فرزندوں کی طرح چلنے کی ترغیب دیتا اور یہ نصیحت کرتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے اس طور سے محبت رکھیں جیسے مسیح نے ہم سے محبت رکھی ہے اور یہ جانیں کہ خداوند کو کیا پسند ہے اور اُس پر عمل کریں (افسیوں 2باب 1-10آیات؛ 3باب 16-19آیات؛ 4باب 1-6آیات؛ 5باب 1-10آیات)۔ افسیوں 6باب 10-18آیات میں پولس رسول ہم پر واضح کرتا ہے ہمیں ہر روز خُدا کے تمام ہتھیار وں کو پہنتے ہوئے کیسے اُس میں مضبوط ہونا ہے تاکہ ہم ابلیس کی چالوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں ۔
مسیح کے پیروکاروں کے طور پر جب ہم خود کو وقف کرتے ہیں کہ ہر روز خدا کے کلام کو پڑھنے اور اُس کا مطالعہ کرنے اور دُعا میں خدا کے ساتھ وقت گزارنے کے ذریعے اپنے ایمان میں بڑھیں اور پختہ ہو ں تو ہم اپنے آپ کو رُوح القدس کی قوت میں مضبو ط ہونے اور گناہ کے خلاف مزاحمت کرنے میں زیادہ سے زیادہ قابل پائیں گے۔ مسیح میں ہم گناہ پر ہر روز جو فتوحات پائیں گے وہ ہماری ہمت بڑھانے اور ہمیں مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا زبردست ثبوت ہوں گی کہ ہم اب گناہ کے نہیں بلکہ خدا کے غلام ہیں۔
English
گناہ کا غلام ہونے سے کیا مُراد ہے ؟