سوال
دنیا میں اتنے دہریے/ملحد ین کیوں ہیں ؟
جواب
اس سے پہلے کہ ہم دہریت پر بحث کریں ہمیں اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔ دہریت کی ایک سرکاری ویب سائٹ کے مطابق ملحدین خود کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں: "دہریت خداؤں پر ایمان نہ رکھنا یا خداؤں کا انکار نہیں ہے؛ یہ خداؤں پر یقین کا فقدان ہے۔" ایسے لوگ جو ملحدین کے طور پر جانے جاتے ہیں وہ ایمان رکھنے سے انکار کرنےکی بجائے اپنے اعتقاد کی کمی پر زور دینا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ فکری لحاظ سے وہ دہریت کو خدا پر ایمان لانے سے افضل سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ وضاحت بائبل کے نظریہِ حیات سے متصادم ہے جو فرماتی ہےکہ "احمق نے اپنے دِل میں کہا ہے کہ کوئی خُدا نہیں"(14زبور 1آیت؛ 53زبور 1آیت)۔ چونکہ ملحد ین ایمان رکھنے والے لوگوں سے اتفاق کر سکتے ہیں کہ ہر انسان کو اس بات کا انتخاب کرنے کی آزادی ہے کہ وہ کیا سوچتا یا ایمان رکھتا ہے لہذ ا یہاں ہم دہریت کی تعریف کسی بھی ایسی اعلیٰ و ارفع ہستی کو تسلیم نہ کرنے کے انتخاب کے طور پر کریں گے جس کے سامنے بنی نوع انسان جوابدہ ہیں۔
اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ دہریت اُن ممالک میں عروج پر ہے جو تاریخی اعتبار سے ایک مضبوط مسیحی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اِن اعدادوشمار میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے بے دین گھرانوں میں پرورش پائی ہے ، لیکن یہ اعدادوشمار اُن لوگوں میں بھی خطرناک اضافے کو ظاہر کرتے ہیں جو کبھی کسی طرح کے مذہبی عقیدے کے حامل تھے۔ جب ہم مسیحیت کی کسی ممتاز شخصیت کے بارے میں سنتے ہیں کہ وہ اُس ایمان کو ترک کر رہا ہے جس کا وہ دعویدارتھاتو ہم حیران رہ جاتے ہیں "کیوں؟" آخر اس حالت میں جبکہ خُداکی دستکاری ہر جگہ واضح ہے (19زبور 1آیت؛ 97زبور 6آیت؛ رومیوں 1باب 20آیت) بہت سے لوگ کیوں خدا پر یقین کرنا چھوڑ یں گے ؟ زمین پر ہر تہذیب کسی نہ کسی طرح کی خدائی ہستی کو تسلیم کرتی ہے تو پھر کیوں بے شما رلوگ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ کسی بھی اعلیٰ ہستی کو بالکل نہیں مانتے؟
اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں جن کی بناء پر لوگ خود کو ملحد قرار دے سکتے ہیں۔ پہلی وجہ جہالت اور لا علمی ہے۔ صحیح معلومات کی کمی کی وجہ سے کو ئی شخص یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ اِس کائنات اور اِس کے بارے میں انسان کے تجربے سے پرے کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ چونکہ ایسی بہت سی باتیں ہیں جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے اس لیے جہالت اُن خالی جگہوں کو پُر کرنے کے لیے اکثر تصورات گھڑتی رہتی ہے۔ اس کا نتیجہ اکثر یا تو جھوٹے مذاہب کی صورت میں نکلتا ہے یا پھر دہریت کی صورت میں۔ خدا کے بارے میں نا مکمل معلومات اکثر افسانیات یا مذہبی توہم پرستی سے اس قدر آلودہ ہوتی ہیں کہ کوئی بھی مافوق الفطرت بات بنا وٹی کہانی معلوم ہوتی ہے۔کچھ لوگ جب مبہم دعوؤں کی گڈمڈ کا شکار ہوتے ہیں تو یہ خیال کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ اُن میں سے کسی میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے اور پھر وہ انتہا پسندی کی راہ اختیار کر لیتے ہیں ۔
کچھ لوگوں کے ملحد ہونے کی ایک اور وجہ مایوسی اور بد ظنی ہے ۔ منفی تجربات جیسے کہ دعا کا جواب نہ ملنے یا دوسروں میں منافقانہ رویے کا مشاہد ہ کرنے کے باعث کوئی شخص یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ خدا موجود نہیں ہے۔ یہ ردعمل اکثر غصے یا دُکھ کے باعث ہوتاہے۔ یہ لوگ استدلال کرتے ہیں کہ اگر خدا موجود ہےتو وہ اُن طریقوں سے برتاؤ کرے گا جن کو وہ سمجھ سکتے یا جن سے وہ متفق ہو سکتے ہیں۔ چونکہ خدا نے اُس طور سے ردّ عمل نہیں کیا جس طرح وہ اُس سے چاہتے تھےاِس لیے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اُس کا موجود ہونا بالکل ضروری نہیں ۔ وہ جہنم، پرانے عہد نامے میں مذکور نسل کشی، یا ابدیت جیسے پیچیدہ تصورات کی بدولت ٹھوکر کھا سکتے اور یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بائبل کا خدا اتنا مبہم ہے کہ وہ حقیقی معلوم نہیں ہوتا۔ مایوسی لوگوں کو کسی غیر مرئی اعلیٰ ہستی کے بجائے دیدنی اور ظاہری چیزوں میں سکون حاصل کرنے پر اکساتی ہے۔ مزید مایوسی کے امکان سے بچنے کے لیے وہ ایمان کی کسی بھی کوشش کو ترک کر دیتے ہیں اور یہ فیصلہ کرنے میں تسلی پاتے ہیں کہ خدا بالکل موجود نہیں ہے ۔
مایوس لوگوں سے گہرا تعلق رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو خود کو "ملحد" کہتے ہیں جبکہ اصل میں وہ مخالف ِخدا ہوتے ہیں۔ ملحد ایک نقاب ہے جس کو کچھ لوگوں خدا کے تئیں گہری نفرت کو چھپا نے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ بچپن کے کسی صدمے یا مذہب کے نام پر بدسلوکی کی وجہ سےیہ لوگ مذہب سے منسلک ہر بات کے خلاف نفرت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خدا کا سختی سے انکار کرنا اُن کے نزدیک وہ واحد اور ظالمانہ راستہ ہے جس کے ذریعے وہ خدا کے خلاف بدلہ لے سکتے ہیں ۔ ماضی کے واقعات نے ایسے گہرے زخم لگائے ہیں کہ خدا کی حقیقت سے انکار کرنا اس بات کو تسلیم کرنے سے زیادہ آسان ہے کہ وہ اُس سے نفرت رکھتے ہیں۔ حقیقی ملحد اس گروہ کو اپنے آپ میں شامل نہیں کریں گےکیونکہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ خدا سے ناراض ہونا اس کے وجود کو تسلیم کرنا ہے۔ لیکن درحقیقت بہت سے لوگ خود کو ملحد کہتے ہیں جبکہ ساتھ ہی ساتھ وہ اُس خدا کے خلاف غصے کا اظہار کرتے ہیں جس کے وجود سے وہ انکاری ہیں۔
پھر بھی دوسرے لوگ خُدا کے تصور سے اس لیے انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے خُدا اپنی تلاش کو لوگوں کے لیے زیادہ آسان بنائے ۔ جب معروف ملحد رچرڈ ڈاؤکنز سے پوچھا گیا کہ "اگر موت کے بعد آپ کو خدا کا سامنا کرنا پڑا تو آپ کیا کہیں گے؟" اُس نے جواب دیا "مَیں اُس سے کہوں گا'تم نے اپنے آپ کو چھپانے کے لیے اتنی بڑی پریشان کیوں اٹھائی؟'" کچھ لوگ اس حقیقت پر تیوری چڑھا رہے ہوتے ہیں کہ خُدا رُوح ہے ، غیر مرئی ہے اور صرف ایمان کے وسیلے قابلِ تلاش ہے (عبرانیوں 11باب 6آیت ؛ یرمیاہ 29باب 13آیت)۔ وہ اس نقطہ نظر کو اپناتے ہیں کہ کائنات کا خالق اپنے وجود کے لیے اُنہیں وہ ثبوت دیتا ہے جو اس نے پہلے سے ہی بکثرت دئیےہوئے ہیں (19زبور 1آیت ؛ 102زبور 25آیت؛ رومیوں 1باب 20 آیت)۔ یسوع اپنی زمینی خدمت کے دوران اِس ذہنیت سے نمٹا تھا ۔ مرقس 8باب میں یسوع نے لوگوں کے ایک ایسے بڑے ہجوم کو جس میں چار ہزار تو صرف مرد ہی تھے سات روٹیوں اور چند مچھلیوں سے سیر کیا ، لیکن اُس دور کی دانشور اشرافیہ میں سے کچھ لوگ اُس کے پاس یہ مطالبہ کرنے آئے تھے کہ وہ اس بات کی " تصدیق " کے لیے کوئی نشان دکھائے کہ وہ مسیحا ہے (11آیت)۔ یسوع نے دل کی اس سختی کو جہنم میں موجود اس امیر آدمی کے حوالے سے اپنی تمثیل میں بیان کیا جو اپنے بھائیوں کو خبردار کرنا چاہتا تھا کہ موت کے بعد اُن کے لیے کیا مقرر ہے (لوقا 16باب 19-31آیات)۔ فردوس سے ابرہام نے جواب دیا کہ " جب وہ مُوسیٰ اور نبیوں ہی کی نہیں سُنتے تو اگر مُردوں میں سے کوئی جی اُٹھے تو اُس کی بھی نہ مانیں گے۔"
دہریت کے مسلسل عروج کی سب سے زیادہ ممکنہ وضاحت باغِ عدن کے بعد سے تبدیل نہیں ہوئی ہے (پیدایش3باب 6آیت؛ رومیوں 3باب 23آیت)۔ خود ارادیت تمام گناہوں کا جوہر ہے۔ ایک خالق کے وجود سے انکار کرتے ہوئے ملحدین مستقبل کی عدالت یا ابدی نتائج کی فکر کیے بغیر جو چاہیں کر سکتے ہیں (متی 12باب 36آیت ؛ رومیوں 14باب 12آیت ؛ 1 پطرس 4باب 5آیت ؛ عبرانیوں 4باب 13آیت)۔ اکیسویں صدی میں خود پرستی ثقافتی طور پر قابل قبول ہو گئی ہے۔ دہریت ارتقائی نظریے اور اخلاقی نسبتیت پسند ی پر پرورش پانے والی نسل کو لبھاتی ہے۔ یوحنا 3باب 19 آیت فرماتی ہے کہ " نُور دُنیا میں آیا ہے اور آدمیوں نے تارِیکی کو نُور سے زِیادہ پسند کِیا۔ اِس لئے کہ اُن کے کام بُرے تھے۔" اگر انسان خود بخود وجود میں آنے والے، خود پسند اور خود مرکوز ہیں تو پھر کوئی اخلاقی قانون یا قانون دینے والا نہیں ہے جس کے سامنے انہیں سر تسلیم خم کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ کوئی حتمی اقدار ہیں اور نہ ہی ایسی کوئی ہستی ہے جس کے سامنے وہ بالآخر جوابدہ ہیں ۔ ایسی سوچ کو اپنا کر ملحد ین صرف اس زندگی میں لذت حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔
جب تک سائنس دان، پروفیسرز اور فلسفی اپنے ملحدانہ نقطہ نظر کو سچائی اور حکمت کے طور پر بیچتے رہیں گے لوگ اُسے خریدتے رہیں گے کیونکہ خود ارادیت کا تصور ہماری باغی فطرت کو لبھاتا ہے۔ یہ رویہ کوئی نئی بات نہیں ہے مگر تبدیل ہوتے ثقافتی معیار اِسے کھلے عام طور پر مزید قابل قبول بنا رہے ہیں ۔ رومیوں 1باب 18-31آیات خدا کے اختیار کو مسترد کرنے کے نتائج کی تفصیل بتاتی ہے۔ 28 آیت بیان کرتی ہے کہ " خُدا نے بھی اُن کو ناپسندِیدہ عقل کے حوالہ کر دیا کہ نالائِق حرکتیں کریں۔" ہماری دنیا اس بگاڑ کے نتائج دیکھ رہی ہے۔ جسے ملحدین "روشن خیالی" کہتے ہیں خدا اُسے بے وقوفی قرار دیتا ہے۔ 22-23آیات فرماتی ہیں کہ "وہ اپنے آپ کو دانا جتا کر بیوُقُوف بن گئے۔" چونکہ "خداوند کا خوف دانائی کا شروع ہے" (111زبور 10آیت ؛ امثال 1باب 10آیت؛ 9باب 10آیت) تو خداوند کا انکار (دہریت ) بے وقوفی کا شروع ہے۔
English
دنیا میں اتنے دہریے/ملحد ین کیوں ہیں ؟