سوال
بائبل سماجی انصاف کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
جواب
سماجی انصاف کے بارے میں مسیحی نقطہ نظر پر گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں ان اصطلاحات کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔ سماجی انصاف سیاسی جذبات پر مبنی ایک ایسا تصور ہے جسے اُس کے جدید دور کے سیاق و سباق سے جُدا نہیں کیا جا سکتا ۔ سماجی انصاف کو اکثر اُن بہت سے لوگوں کے نعرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو سیاسی حلقہ (مثلاً دائیں طرف قدامت پسندی، فسطاہیت، آزاد خیالی - بائیں طرف اشتراکیت ،اشمالیت ، حریت پسندی ) کے بائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ویکیپیڈیا پر " سماجی انصاف " کے بارے درج یہ اقتباس اس تصور کی ایک اچھی تعریف ہے :
" سماجی انصاف بھی ایک تصور ہے جسے کچھ لوگ سماجی طور پر انصاف پسند دنیا کی طرف تحریک کو بیان کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس تناظر میں سماجی انصاف انسانی حقوق اور مساوات کے تصورات پر مبنی ہے اور اس میں ترقی پسند ٹیکس، آمدنی کی دوبارہ تقسیم یا یہاں تک کہ جائیداد کی دوبارہ تقسیم کے ذریعے معاشی مساوات پسندی کا ایک بڑا درجہ شامل ہے۔ ان پالیسیوں کا مقصد وہ سب حاصل کرنا ہے جسے ترقیاتی ماہرین معاشیات اس وقت بعض معاشروں میں موجود مواقع کی زیادہ مساوات قرار دیتے ہیں اور ایسے معاملات میں نتائج کی مساوات تیار کرنا ہے جہاں واقعاتی عدم مساوات ایک طریقہ کار کے مطابق انصاف پر مبنی نظام میں ظاہر ہوتی ہے۔ "
"نظریہ انسانی مساوات" اس تعریف میں کلیدی الفاظ ہیں ۔ یہ الفاظ "آمدنی کی تقسیمِ نو " ،"جائیداد کی تقسیم نو " اور " مساواتِ حاصل " کے جزو ِ جملے کے ساتھ مل کر سماجی انصاف کے بارے میں کافی حد تک بیان کرتے ہیں ۔ بحیثیت ایک سیاسی نظریے کے نظریہ انسانی مساوات بنیادی طور پر اس تصور کو فروغ دیتا ہے کہ تمام لوگوں کو یکساں (مساوی) سیاسی ، سماجی ، معاشی اور شہری حقوق حاصل ہونے چاہییں ۔ یہ تصور اعلانِ آزادی جیسے دستاویزات میں شامل نا قابل تقسیم انسانی حقوق کی بنیاد پر قائم ہے ۔
تاہم ایک معاشی نظریے کی حیثیت سے عقیدہِ انسانی مساوات نظریہ اشتراکیت اور نظریہ اشمالیت کے پیچھے کام کرنے والی محرک قوت ہے۔ یہ معاشی عقیدہِ انسانی ِ مساوات ہی ہے جو دولت کی تقسیم نو کے وسیلہ سے معاشی عدم مساوات کی رکاوٹوں کو دور کرنے کےلیے کوشاں ہے۔ ہم اس کو سماجی فلاح و بہبود کے پروگراموں میں نافذ ہوتا ہوا دیکھتے ہیں جہاں بتدریج ٹیکس پالیسیوں میں دولت مند لوگوں سے نسبتاً زیادہ رقم وصول کی جاتی ہے تاکہ ان لوگوں کے معیار زندگی کو ترقی دی جائے جن کے پاس ایسے وسائل موجود نہیں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں حکومت دولت مندوں سے لیتی اور غریبوں کو دیتی ہے ۔
اس نظریے کو دوہرے مسائل درپیش ہیں : پہلے نمبر پر عقیدہِ انسانی مساوات میں ایک غلط مفروضہ یہ ہے کہ امیر لوگ غریبوں کا استحصال کر کے دولت مند ہوئے ہیں ۔ پچھلے 150 سالوں کا زیادہ تر سماجی ادب اسی غلط فہمی کو فروغ دیتا چلا آ رہا ہے ۔ بنیادی طور پر یہ معاملہ گزشتہ دور میں اُس وقت ہوا ہو گا جب کارل مارکس نے اپنی پہلی کتاب کیمونسٹ مینی فیسٹو (Communist Manifesto) لکھی تھی اور حتیٰ کہ آج بھی کبھی نہ کبھی ایسا معاملہ ہو سکتا ہے لیکن یقیناً ہر وقت نہیں۔ دوسرے نمبر پر سماجی پروگرام مسائل کو حل کرنے کی نسبت زیادہ مسائل پیدا کرنے کا رجحان رکھتے ہیں ؛ دوسرے الفاظ میں یہ کام نہیں کرتے ۔ فلاح و بہبود کا عمل جو جزوی ملازمت کے حامل لوگوں کی تنخواہ کو بڑھانے یا بے روزگاروں کی مدد کرنے کے لیے عوامی ٹیکس کو استعمال کرتا ہے عا م طور پر وصول کنندگان پر اس طرح سے اثر انداز ہوتا ہے کہ وہ اپنی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے کی بجائے سر کاری امداد پر انحصار کرنے لگ جاتے ہیں ۔ ہر وہ جگہ جہاں اشتراکیت /اشمالیت کو قومی سطح پر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ معاشرے میں طبقاتی امتیاز کو دور کرنے میں نا کام رہے ہیں ۔ اس کے بجائے یہ بس اشرافیہ کے امتیاز کو عام آدمی کے امتیاز کیساتھ اور ایک محنت کش طبقے کے امتیاز کو سیاسی طبقے کے امتیاز کیساتھ بدل دیتا ہے ۔
پس سماجی انصاف کے بارے میں مسیحی نقطہ ِ نظر کیا ہے؟ بائبل سکھاتی ہے کہ خدا انصاف کا خدا ہے۔ در حقیقت " اُس کی سب را ہیں انصاف کی ہیں" (استثنا 32باب 4آیت)۔ مزید یہ کہ بائبل سماجی انصاف کے تصور کی حمایت کرتی ہے جس میں غریبوں اور مصیبت زدہ لوگوں کی حالت زار کے لیے فکرمند ی اور خبرگیری کا اظہار کیا جاتا ہے (استثنا 10باب 18آیت؛ 24باب 17آیت؛ 27باب 19آیت)۔ بائبل میں اکثر یتیموں ، بیواؤں اور پردیسیوں کا ذکر ہوتا ہے - یعنی ایسے لوگ جو اپنے آپ کےلیے بندوبست کرنے کے قابل نہیں تھے یا جن کےپاس معاشی مدد نہیں تھی ۔ خدا کی طرف سے اسرائیلی قوم کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ معاشرے کے غریب لوگوں کی دیکھ بھال کرے اور ان کے ایسا کرنے میں حتمی ناکامی ہی خُدا کی طرف سے اُن کی عدالت اور اپنے ملک سے بے دخل کئے جانے کی ایک جزوی وجہ تھی۔
زیتون کے پہاڑ پر اپنے بیان میں یسوع " سب سے چھوٹے بھائیوں " ( متی 25باب 40آیت) کی خبرگیری کرنے کا ذکر کرتا ہے اور یعقوب کے خط میں وہ " بے عیب دین داری" ( یعقوب 1باب 27آیت) کی فطرت کی وضاحت پیش کرتا ہے ۔ لہذا اگر سماجی انصاف سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ غریب لوگو ں کی اخلاقی خبرگیری کرنے کا پابند ہے تو پھر یہ درست ہے ۔ خدا جانتا ہے کہ گناہ آلود انسانیت کے باعث معاشرے میں بیوائیں ، یتیم اور پردیسی ہوں گے اور اُس نے پرانے اور نئے عہد نامے میں معاشرے کے ان بے کس لوگوں کی خبرگیر ی کےلیے اہتمام کیا ہے ۔ ایسے طرزِ عمل کا نمونہ یسوع مسیح خود ہے جس نے معاشرے کے بے کس لوگوں کو بھی انجیل کا پیغام سُنانے کے وسیلہ سے خدا کے انصاف کےبارے میں سوجھ بوجھ مہیا کی ہے۔
سماجی انصاف کا مسیحی تصور تاہم موجودہ دور کے سماجی انصاف کے لا دین تصور سے مختلف ہے۔ غریبوں کی دیکھ بھال کرنے کے لئے بائبل کی نصیحتیں زیادہ سماجی سطح پر نہیں بلکہ انفرادی سطح پر ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ہر مسیحی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ جو کچھ کر سکتا ہے " چھوٹے بھائیوں " کی مد د کےلیے کرے ۔ بائبل کے ایسے احکام کی بنیاددوسرے سب سے بڑے حکم – " اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ" ( متی 22باب 39آیت) میں پائی جاتی ہے ۔آج کل کا سیاسی جذبات کا حامل سماجی انصاف کا تصور انفرادی ذمہ داری کو حکومت پر ڈال دیتا ہے جو ٹیکس اور دوسرے ذرائع سے دولت کی تقسیم نو کرتی ہے ۔ یہ پالیسی محبت کے پیشِ نظردینے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی ہے بلکہ ان لوگوں کی ناراضگی کا باعث بنتی ہے جو اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت کو حکومت کی طرف سے چھینے جانے کے طور پر دیکھتے ہیں ۔
ان دونوں کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ سماجی انصاف کے بارے میں مسیحی نظریہ حیات یہ نہیں مانتا کہ دولت مند ناجائز فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ مسیحی نظریہ حیات میں دولت ایک برائی نہیں ہے بلکہ یہ کسی شخص کے اپنی دولت کا اچھا منتظم بننے کی ذمہ داری اور توقع ہے (کیونکہ ساری دولت خدا کی طرف سے ہے)۔ آج کل کا سماجی انصاف اس مفروضے کے تحت کام کرتا ہے کہ دولت مند غریبوں کا استحصال کرتے ہیں۔ اس سلسلے کا تیسرا فرق یہ ہے کہ مسیحی نظریہ مختاریت کے تحت ایک مسیحی جن لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہے اُنہیں خیرات دے سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی مسیحی نوزائیدہ بچوں کےلیے درد مندی رکھتا ہے تو وہ اپنے وقت ، قابلیت اور پیسے کے وسیلہ سے اُن بچوں کی زندگی بچانے والے اداروں کی مدد کرسکتا ہے۔ سماجی انصاف کی معاصر شکل کے تحت حکومت کے اندر اقتدار کے حامل لوگ اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ نئے سرے سے تقسیم شدہ دولت کو کون لوگ وصول کریں گے ۔ حکومت ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے جو کچھ کرتی ہے اس پر ہمارا کچھ اختیار نہیں ہے اور عموماً یہ رقم خیراتی اداروں میں جاتی ہے جسے ہم ممکنہ طور پر قابل ِ قدر خیال نہیں کرتے۔
بنیادی طور پر سماجی انصاف کے لئے خدا مرکوز نقطہ نظر اور انسان مرکوز نقطہ نظر کے درمیان تناؤ پایا جاتا ہے۔ انسان مرکوز نقطہ نظر حکومت کو نجات دہندہ کے کردار میں دیکھتا ہے جو حکومتی پالیسیوں کے وسیلہ سے مثالی معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے ۔ جبکہ خدا مرکوز نقطہ نظر مسیح کو نجات دہندہ کے طور پر دیکھتا ہے جو اپنی دوسری آمد پر زمین کو فردوس بنائے گا ۔ اپنی آمد پر مسیح تمام چیزوں کو بحال کرے گا اور کامل انصاف کی تکمیل کرے گا۔ اُس وقت تک مسیحی بے کس لوگوں کے ساتھ مہربانی اور رحم کا مظاہرہ کرنے کے ذریعے خدا کی محبت اور انصاف کا اظہار کرتے ہیں۔
English
بائبل سماجی انصاف کے بارے میں کیا کہتی ہے؟