سوال
مَیں رُوحانی امتیاز /رُوحانی پرکھ کی خصوصیت کو کیسے بڑھا سکتا ہوں؟
جواب
پرکھ کی تعریف کچھ یوں کی جاتی ہے کہ "غیر واضح بات کو جاننے اور سمجھنے کے قابل ہونے کی خصوصیت ؛ کسی بات کو سمجھنے کا عمل؛ اُن باتوں کو سمجھنے کی قابلیت جو اوسط ذہن پر عیاں نہ ہوں "۔ جیسا کہ اس تعریف "سچائی کو دیکھنے کی صلاحیت" میں دیکھا جا سکتا ہے یہ درستگی پر بھی زور دیتی ہے ۔ رُوحانی پرکھ صحیح اور غلط کے درمیان فرق بتانے کی صلاحیت ہے۔ یہ حکمت کے حصول کی بنیاد ہے۔
دلائل اور مباحثے رُوحانی سچائی کو گھیرے ہوئے ہیں کیونکہ یہ غیر واضح ہے۔خُداوند یسوع نے فریسیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ" تُم کو آسمان کی بادشاہی کے بھیدوں کی سمجھ دی گئی ہے مگر اُن کو نہیں دی گئی "( متی 13باب 11آیت)۔ چونکہ شیطان نے بے ایمانوں کی "عقلوں کو ۔۔۔۔اَندھا کر دِیا ہے "( 2کرنتھیوں 4باب 4آیت ) لہٰذا خدا کو انسانی عقل کو روشن کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں سچائی کو سمجھنے کے قابل بنایا جا سکے۔ خدا کے بغیر حکمت کو پانا ناممکن ہے۔ وہ سمجھ بخشتا یا چھین لیتا ہے (ایوب 12 باب 19-21آیات)۔
کچھ لوگوں نے غلطی سے رُوحانی پرکھ کی تعریف بُری یا اچھی رُوح کی موجودگی کے حوالے سے خدا کی طرف سے بخشے گئے شعور کے طور پر کی ہے ۔ اُن کے مطابق یہ وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے سے بتایا جا سکتا ہے کہ آیا کمرے میں کوئی بد روح ہے یا نہیں ۔ اگرچہ کچھ لوگوں میں یہ صلاحیت ہو سکتی ہے لیکن یہ پرکھ کا بائبلی مفہوم نہیں ہے۔ رُوحانی پرکھ کا تعلق بنیادی طور پر حکمت اور سچائی کو غلطی سے جُدا کرنے کی صلاحیت سے ہے۔
امثال 1باب میں حکمت کو ایک تجسم اور ایک ایسے شخص کے طور پر بیان کیا گیا ہے جسے ہم جان سکتے ہیں( 20-33آیات)۔ بائبل فرماتی ہے کہ یسوع مسیح " خدا کی طرف سے حکمت" ہے (1 کرنتھیوں 1باب 30آیت)۔ لہٰذا حکمت یا رُوحانی پر کھ وہ چیز ہے جو یسوع مسیح کو جاننے سے حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کی حکمت حاصل کرنے کا طریقہ خدا کے طریقے سے مختلف ہے۔ دنیا کے دانشمند علم حاصل کرنے اور مسائل کو حل کرنے، عمارتیں تعمیر کرنے اور فلسفے ترتیب دینے کے لیے علم پر استدلال کا اطلاق کرتے ہیں۔ لیکن خدا اپنی ذات کے علم کو اِن ذرائع کے وسیلہ سےمیسر نہیں کرتا۔1 کرنتھیوں 1 باب 18-31آیات فرماتی ہیں کہ "حکیموں کی حکمت" اُس خُدا کی طرف سے نا پسندیدہ ہے جو یسوع مسیح کے ساتھ تعلق کے وسیلہ سے "بے وقوفوں " اور "کمزوروں" کو حکمت بخشتا ہے۔ اور یوں "کوئی بشر خُدا کے سامنے فخر " نہیں کر سکتا ( 29آیت )۔ ہم اُسے جاننے کے وسیلہ سے رُوحانی طور پر پرکھ کرنا سیکھتے ہیں۔
علم حاصل کرنا یا تعلیم حاصل کرنا غلط نہیں ہے اور مسائل کے حل کے لیے عقل و منطق کا استعمال کرنا بھی غلط نہیں ہے۔ تاہم رُوحانی پرکھ اس طرح حاصل نہیں کی جا سکتی ۔ ایماندار کو یہ یسوع مسیح کے مکاشفہ کے ذریعہ سے عطا کی جانی چاہیے اور پھر اُسے راستبازی کے کلام کی مشق ( عبرانیوں 5باب 14آیت) اور دُعا کرنے ( فلپیوں 1باب 9آیت) کے ذریعہ سے ترقی کرنی چاہیے ۔ عبرانیوں 5باب 11-14آیات واضح کرتی ہیں کہ رُوحانی پرکھ کیسے بڑھتی ہے ۔ مصنف اُن لوگوں سے مخاطب ہے جو "اونچا سُننے لگے " تھے یعنی اُنہیں نے رُوحانی طور پر پرکھ کرنے کی مشق تر ک کر دی تھی ۔ عبرانیوں کا مصنف انہیں بتاتا ہے کہ ہر وہ شخص جو (بالغوں کے لیے مطلوب " سخت غذا" کی بجائے) "دودھ" پر انحصار کرتا ہے راستبازی کے کلام میں اناڑی ہے ۔ تاہم بالغ مسیحیوں کے " حواس کام کرتے کرتے نیک و بد میں اِمتیاز کرنے کے لئے تیز ہو گئے ہیں۔" اس حوالے کے مطابق رُوحانی پرکھ میں ترقی کرنے کی اہم کلید خدا کے کلام (جس کے وسیلہ سے ہم راستبازی کو بیان کرتے ہیں) اور "مسلسل مشق" (جس کے ذریعے ہم تجربہ حاصل کرتے ہیں) میں مہارت حاصل کرنا ہے ۔
پس کوئی شخص رُوحانی پر کھ میں کیسے ترقی کرتا ہے؟ سب سے پہلے ،یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ صرف خدا ہی ہےجو حکمت کو بڑھا سکتا ہے اِس کے لیے دعا کریں (یعقوب 1باب 5آیت؛ فلپیوں 1باب 9آیت) ۔ پھر مشق اور تربیت کے وسیلہ سے اچھائی اور برائی میں فرق جاننے کے لیے بائبل کا مطالعہ کریں تاکہ سچائی کے بارے میں سیکھا جا سکے اور اس کے بعد کلام پر دھیان گیان کرنے کے وسیلے سچائی کو مضبوط کریں۔
جب کوئی بینک کسی ملازم کو ملازمت پر رکھتا ہے تو اُسے جعلی نوٹوں کو پہچاننے کی تربیت دی جاتی ہے۔ کوئی شخص سوچے گا کہ کسی جعلی نوٹ کو پہچاننے کا بہترین طریقہ مختلف جعلی نوٹوں کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ لیکن اس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہر روز نئے نئے جعلی نوٹ تیار کئے جارہے ہیں ۔ اصل نوٹ کے بارے میں گہری معلومات رکھنا جعلی نوٹ کو پہچاننے کا بہترین طریقہ ہے ۔ اصل نوٹوں کا مطالعہ کرنے کے بعد جب کوئی جعلی نوٹ سامنے آتا ہے تو بینک کے کیشیئر اس سے دھوکہ نہیں کھاتے ۔ سچ کا علم انہیں جھوٹ کی شناخت کرنے میں مدد کرتا ہے۔
رُوحانی پرکھ میں اضافے کے لیے مسیحیوں کو ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اصل کے بارے اتنی اچھی طرح جاننا چاہیے کہ جب نقل سامنے آئے تو ہم اُسے پہچان سکیں۔ خُدا کے کلام کو جاننے اور اُس کی پیروی کرنے کے وسیلہ سے ہمارے " حواس کام کرتے کرتے نیک و بد میں اِمتیاز کرنے کے لئے تیز "ہو جائیں گے ۔ ہم خدا کے کردار اور مرضی کو جان جائیں گے۔ دنیا کی آواز کو خدا کی آواز سے جُدا کرنے کے قابل ہونا اور یہ فہم رکھنا کہ "یہ صحیح ہے" یا "یہ غلط ہے"- رُوحانی پرکھ کے عمل کا مرکزی نکتہ ہے - رُوحانی پرکھ آزمایش کی مزاحمت کرتی اور ہمیں اِس قابل بناتی ہے کہ " بدی سے نفرت رکھیں۔ نیکی سے لپٹے رہیں" (رومیوں 12باب 9آیت )۔
English
مَیں رُوحانی امتیاز /رُوحانی پرکھ کی خصوصیت کو کیسے بڑھا سکتا ہوں؟