سوال
رُوحانی اصول و ضوابط کیا ہیں ؟
جواب
اصول و ضوابط کی تعریف "کسی مخصوص کردار یا طرز عمل کے حصول کی خاطر کی گئی مشق " کے طور پر کی جاتی ہے ۔ اصول و ضوابط گناہ آلود فطرت کا حصہ نہیں ہے لیکن یہ مسیحی زندگی کا ایک فطری جزو ہے۔ درحقیقت اس کے بغیر ہماری زندگی میں اہمیت کا حامل تقریباًکوئی بھی کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ رُوحانی اُصول و ضوابط کو اُس طرز عمل کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے جو ہماری رُوحانی نشوونما کو ترقی دیتے اور ہمیں رُوحانی پختگی کی طرف بڑھنے کے قابل بناتے ہیں۔ رُوحانی نشو ونما اور ترقی کا یہ عمل اُس وقت شروع ہوتا ہے جب کوئی شخص مُردوں میں سے جی اُٹھے یسوع مسیح کا سامنا کرتا اور نجات کے لیے اُس کے پاس آتا ہے۔
رُوحانی نظم و ضبط کا مقصد ہماری اُس باطنی شخصیت کی ترقی ہےجسے مسیح نے نجات کے موقع پر تبدیل کیا ہے (2 کرنتھیوں 5باب 17آیت)۔ نجات یافتہ ایماندار وں نے سوچ، احساس اور کردار میں فرق پر مشتمل اپنی پوری شخصیت کی مکمل تجدید نوکا تجربہ کیا ہے جو ہمارے ظاہری طرزِ عمل میں آہستہ آہستہ عیاں ہو سکتا ہے۔ پولس کے ذہن میں یہی بات تھی جب اُس نے "پرانی انسانیت " کو اتارنے اور نئی انسانیت"جو معرفت حاصل کرنے کے لیے اپنے خالق کی صورت پر نئی بنتی جاتی ہے " ( کلسیوں 3باب 9-10آیات) کو پہن لینے کا ذکر کیا تھا ۔
رُوحانی اُصول ضوابطہ کے حوالے سے آج کل بہت سے مشہور پروگرام اور کتابیں موجود ہیں لیکن اُن میں کچھ کسی انسان کی تربیت کرنے کے مختلف طریقوں کا خاکہ پیش کرنے کی اپنی کوشش میں کلامِ مقدس سے بہت دور نکل جاتی ہیں۔ اُن میں سے کچھ طریقے بعض اوقات مشرقی تصوف ، کیتھولک تصوف اور نیو ایج فلسفے کے شعبوں پر غور و خوص کرتےکرتے عارفانہ علم اور غیر بائبلی علم سے جا ملتے ہیں۔ خدا کی آواز کو "سننا" اور سانس لینے کے ذریعے دُعا کرنا/ متغرق دعا / دھیان و گیان پرمبنی دعا جیسی غیر بائبلی مشقیں اس تحریک کا نتیجہ ہیں ۔ کلام مقدس کے اُن فرمانوں سے لپٹے رہنا رُوحانی اُصول و ضوابط کی تفہیم میں غلطی سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے جو تمام مسیحیوں کو بخشے گئے تاکہ ہم خود کو خدا کے کلام جس میں خدا ہم سے بولتا ہے اور دُعا جس میں ہم خدا سے مخاطب ہوتے ہیں میں ڈوب جائیں ۔
اُصول و ضوابط میں سب سے اولین اُصول وہ ہے جو خدا کے کلام کو شامل کرتے ہوئے کلام مقدس کے پڑھنے ، مطالعہ کرنے ، یاد کرنے اور اس پر غورو خوص کرنے پر مشتمل ہے ۔ اگر اس نظم و ضبط کو نظر انداز کر دیا جائے تو خود تربیتی کی کوئی اور کوشش کامیاب نہیں ہو گی کیونکہ ہمارے پاس اُس گناہ آلود فطرت کی مزاحمت پر قابو پانے کی طاقت نہیں ہے جس میں ہماری نئی فطرت بسی ہوئی ہے۔ نہ ہی ہمارے پاس ابلیسی اثر و رسوخ کی مزاحمت پر قابو پانے کی طاقت ہے جس کا مقصد ہمیں رُوحانی ترقی کے واحد ذریعے یعنی خدا کے کلام سے دُور کرنا ہے۔ پولس نے تیمتھیس کو کلام ِ مقدس کی اصل نوعیت کی یاد دہانی کرائی کہ یہ حقیقی طور پر خُدا کے منہ سے نکلایعنی "خداکے الہام "سے ہے اور اس طرح خُدا کی قدرت پر مشتمل ہے۔ وہ انجیل کو "خدا کی قدرت" کے طور پر بھی پیش کرتا (رومیوں 1باب 16آیت) اور مسیحیوں کو "رُوح کی تلوارجو خدا کا کلام ہے" کو شیطانی قوتوں کے خلاف ہمارے واحد موثر رُوحانی ہتھیار کے طور پر اٹھانے کی ہدایت کرتا ہے )افسیوں 6باب 17آیت)۔ ہمیں رُوحانی نظم و ضبط کی کسی بھی کوشش کا آغاز قوت کے واحد سرچشمے خدا کے کلام سے کرنا چاہیے۔
کلام کو زبانی یاد کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ ہم اس بات کا انتخاب کرنے کے لیے ہمیشہ آزاد ہیں کہ ہم اپنے ذہن میں کیا محفوظ رکھتے ہیں۔ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئےیاد کرنا لازمی ہے۔ اگر ہم حقیقی طور پر مانتے ہیں کہ بائبل خدا کا کلام ہے تو ہم اسے کیسے یاد نہیں کر سکتے؟ کلام کو یاد کرنا ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ ہم اِسے مسلسل اپنے ذہنوں میں رکھیں اور یہ عمل زندگی کے تمام حالات پر اُس کے فرمانوں کے مطابق رد عمل کرنے کو ممکن بناتا ہے۔ زبانی یاد کرنے کی ضرورت کے حوالے سے کلامِ مقدس کے سب سے زبردست حوالہ جات میں سے ایک یشوع 1باب 8آیت ہے: " شرِیعت کی یہ کِتاب تیرے مُنہ سے نہ ہٹے بلکہ تجھے دِن اور رات اِسی کا دھیان ہو تاکہ جو کچھ اِس میں لِکھا ہے اُس سب پر تُو اِحتیاط کر کے عمل کر سکے کیونکہ تب ہی تجھے اِقبال مندی کی راہ نصیب ہو گی اور تُو خُوب کامیاب ہو گا"۔ زبانی یاد کرنے کے اُصول کے وسیلہ سے ہی ہم زیادہ مؤثر طریقے سے دعا کرنے اور کلام پر دھیان گیان کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہ بدلے میں ہمیں "اقبال مندی " اور کامیابی پانے کے قابل بناتا ہے جیسا کہ خدا کامیابی کو ہمارے لیےبیان کرتا ہے۔ جب ہم اُس کی راہوں اور اُس کی مرضی پر چل رہے ہوتے ہیں، تو ہم ایک نئے رُوح سے معمور باطنی شخصیت سے آراستہ ہوتے ہیں، جو خدا کے دل کے مشابہ ہے ۔
دوسرا نظم و ضبط دُعا کا اُصول ہے۔ ہماری دعائیں شکر گزاری، تعظیم، درخواست ، التجا اور گناہ کے اعتراف کے وسیلہ سے خدا کے ساتھ ایک ُروحانی رابطہ ہے۔ دعا کے بارے میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہم جہا ں بھی ہوتے ہیں خدا وہیں ہم سے آ ملتا ہے ۔ وہ اپنے ساتھ ایک گہرے، زیادہ حقیقی رشتے کی طرف ہماری رہنمائی کرنے کے لیے ہمارے سا تھ ساتھ رہتا ہے۔ ایک ایسا تعلق جو احساسِ گناہ سے نہیں بلکہ خُدا کی محبت سے تحریک پاتا ہے۔ دعا ہمیں تبدیل کرتی ہے۔ دُعا زندگیوں کو تبدیل کر تی ہے۔ دعا تاریخ کو تبدیل کرتی ہے۔ ہمارا خُدا کو جاننا اصل میں ہمیں مسیح کا ہمشکل بننے اور اپنی زندگیوں کو اُس کی مرضی کے مطابق بنانے کی خواہش عطا کرتا ہے۔ جب ہم دعا کرتے ہیں تو خُدا آہستہ آہستہ اور بڑی شفقت سے خود کو ہم پر عیاں کرتا ہے اور یہی وہ لمحات ہیں جن کے دوران ہم اُس کی محبت کو زیادہ گہرے طور پر سمجھ پاتے اور اُسکا تجربہ کر سکتے ہیں۔ یقیناً، بلا ناغہ دعا کے اہم نتائج میں سے ایک دُعا کا خُدا کی طرف سے جواب ملنا ہے ۔ لیکن اصل میں یہ دعا جو کہ خدا کے ساتھ ایک بتدریج ترقی پانے والا اور نہ ختم ہونے والا رابطہ ہے ، یہ دُعا کے حقیقی مقصد کے مقابلے میں ثانوی اہمیت کا حامل ہے ۔
دعا اور کلام کے رُوحانی اُصول و ضوابط ایک ساتھ اختیار کرنا ہمیں ایک فائدہ مند منصوبہ فراہم کرے گا جو دیندار زندگی، حمدو ستایش، تابعداری ، خدمت گزاری اور ہماری نجات کی خوشی اور اُس خدا کی طرف رہنمائی کرے گا جس نے یہ سب کچھ ہمیں عطا کیا ہے۔ ان اُصول و ضوابط کے ذریعے ہم خُدا کے اُس حکم کی تعمیل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں کہ "ڈرتے اور کانپتے ہُوئے اپنی نجات کا کا م کئے جاؤ۔ کیونکہ جو تُم میں نِیّت اور عمل دونوں کو اپنے نیک اِرادہ کو انجام دینے کے لئے پَیدا کرتا ہے وہ خُدا ہے"(فلپیوں 2باب 12-13آیات)۔
English
رُوحانی اصول و ضوابط کیا ہیں ؟