settings icon
share icon
سوال

رُوحانی جنگ کے بارے میں بائبل کیا کہتی ہے ؟

جواب


جب کبھی بھی رُوحانی جنگ کی بات آتی ہے تو یہاں پر دو طرح کی غلطی اکثر سامنے آتی ہے – اِس پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور دینا اور یا پھر اِس پر ضرورت سے کم زور دینا۔ بہت سارے لوگ ایسے ہیں وہ ہر ایک گناہ، ہر ایک جھگڑے اور ہر ایک مسئلے کا الزام کچھ ایسی بد رُوحوں پر دھر دیتے ہیں جن کا نکالا جانا بہت ضروری ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو مکمل طور پررُوحانی دُنیا اور اُس کے ایسے معاملات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اِس حقیقت کو بھی نظر انداز کرتے ہیں کہ بائبل مُقدس ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ ہمارا مقابلہ یا جنگ رُوحانی قوتوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ رُوحانی جنگ میں کامیاب ہونے کے لیے بائبل کی تعلیم کی بنیاد پر متوازن تصور کی ضرورت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ یسوع نے بیمار لوگوں میں سے بد رُوحوں کو نکالا اور پھر بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ اُس نے بد رُوحوں کا ذکر کئے بغیر بہت سارے لوگوں کو شفا بخشی۔ پولس رسول ہدایت کرتا ہے کہ مسیحی اپنے اندر موجود گناہ کے خلاف جنگ لڑیں (رومیوں 6 باب) اوروہ ابلیس کے منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کی تلقین بھی کرتا ہے (افسیوں 6 باب 10- 18 آیات)۔

افسیوں 6باب 10-12آیات بیان کرتی ہیں کہ ، " غرض خُداوند میں اور اُس کی قُدرت کے زور میں مضبوط بنو۔خُدا کے سب ہتھیار باندھ لوتاکہ تم اِبلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم رہ سکو۔کیونکہ ہمیں خُون اور گوشت سے کُشتی نہیں کرنا ہے بلکہ حکومت والوں اور اِختیار والوں اور اِس دُنیا کی تارِیکی کے حاکموں اور شرارت کی اُن رُوحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں۔" یہ حوالہ ہمیں کچھ بہت اہم سچائیوں کے بارے میں تعلیم دیتا ہےجو کہ یہ ہیں کہ ، ہم صرف خُدا کی قدرت کے زور کی بدولت ہی مضبوط ہو کر کھڑے ہو سکتے ہیں، خُدا کے سب ہتھیار ہی ہمیں ایسی کسی بھی جنگ میں بچا سکتے ہیں، ہماری حتمی جنگ رُوحانی فوجوں اور اِس دُنیا کی تاریکی کے حاکموں کے خلاف ہے۔

افسیوں 6باب13- 18آیات اُن رُوحانی ہتھیاروں کے بارے میں بیان ہے جو خُدا ہمیں دیتا ہے۔ ہمیں سچائی سے اپنی کمر کس کر، راستبازی کا بکتر لگا کر، صلح کی خوشخبری کی تیاری کے جوتے پہن کر، ایمان کی سِپر لگا کر، نجات کا خود پہن کر، رُوح کی تلوار ہاتھ میں لے کر اور رُوح میں دُعا کرتے ہوئے مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ رُوحانی جنگ کے اندر یہ رُوحانی ہتھیار کن چیزوں یا باتوں کی نمائندگی کرتے ہیں؟ ہمارے لیے سچائی کو جاننا، سچائی پر ایمان لانا اور سچ بولنا یعنی سچائی کا پرچار کرنا ضروری ہے۔ ہمیں اِس حقیقت پر یقین کرنا ہے کہ یسوع مسیح کے صلیبی کفارے کی بدولت ہم راستباز ٹھہرائے گئے ہیں۔ ہمیں کسی بھی طرح کی مخالفت کے باوجود انجیل کی منادی کے کام کو جاری رکھنا ہے۔ہم پر چاہے جس قدر بڑا رُوحانی حملہ کیوں نہ ہو ہمیں خُدا پر اپنا بھروسہ قائم رکھنا ہے اور ہمیں اپنے ایمان میں کبھی بھی ڈگمگانا نہیں ہے۔ ہمارا حتمی دفاع در حقیقت مسیح کے وسیلے ہماری نجات کا یقین ہے، اور یہ وہ یقین ہے جسے ہم سے کوئی رُوحانی قوت کبھی بھی چھین نہیں سکتی۔ ابلیسی قوتوں کے خلاف ہمارا سب سے کاریگر ہتھیار ہمارے اپنے خیالات یا اپنے احساسات نہیں بلکہ خُدا کا زندہ کلام ہے۔ اور ہمیں رُوح القدس کی قدرت اور اُس کی پاک مرضی میں رہ کر دُعا کرنے کی ضرورت ہے۔

روحانی جنگ میں آزمائش کا مقابلہ کرنے اور اُس کے خلاف مزاحمت کرنے میں خُداوند یسوع مسیح ہمارے لیے حتمی اور عملی نمونہ ہے۔ غور کیجئے کہ جس وقت خُداوند یسوع مسیح پر بیابان میں آزمائش کے وقت ابلیس نے براہِ راست حملے کئے تو اُس نے کس طرح اُن کا مقابلہ کیا (متی 4باب1-11 آیات)۔ ہر ایک حملے کا جواب خُداوند یسوع نے خُدا کے کلام کے ساتھ دیا اور اپنے ہر جواب کے آغاز میں اُس نے کہا "لکھا ہے کہ "۔ ابلیس کی طرف سے کسی بھی آزمائش کا سب سے موثر جواب دینے کے لیے زندہ خُدا کا کلام سب سے زیادہ موثر ہتھیار ہے۔ "مَیں نے تیرے کلام کو اپنے دِل میں رکھ لیا ہے تاکہ مَیں تیرے خلاف گناہ نہ کروں۔" (119 زبور 11 آیت)

رُوحانی جنگ کے حوالے سے خبردار رہنے کے لیے ہمیں اِس سے مناسب طور پر نپٹنے کی ترتیب کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ یسوع کا نام لینا کوئی جادوئی منتر نہیں ہے جسے سُن کر بد ارواح ہمارے سامنے سے بھاگ جائیں گی۔ ہم بائبل میں سے سِکوا یہودی کے سات بیٹوں کی مثال سے یہ بات سیکھ سکتے ہیں کہ جب لوگ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اُنہیں خُداوند یسوع کی طرف سے بد ارواح پر اختیار حاصل ہے جبکہ حقیقت میں اُنہیں اختیار حاصل نہیں ہوتا تو اُن کے ساتھ کیا ہوتا ہے (اعمال 19باب13- 16آیات)۔ حتیٰ کہ مقرب فرشتے میکائیل نے بھی اپنی طاقت اور اختیار کے بل بوتے پر لعن طعن کرتے ہوئے ابلیس پر نالش نہ کی بلکہ اُس نے اُس سے کہا کہ "خُداوند تجھے ملامت کرے۔" (یہوداہ 1باب 19 آیت)۔ جس وقت ہم ابلیس کے ساتھ بات چیت کرنا شروع ہو جاتے ہیں تو اُس وقت خدشہ ہوتا ہے کہ ہم بھی حوؔا کی طرح دھوکا کھا کر بھٹک جائیں گے (پیدایش 3باب1-7آیات)۔ ہماری ساری توجہ خُدا پر ہونی چاہیے نہ کہ ابلیس اور اُسکی بدرُوحوں پر، اور ہمیں بات چیت بھی خُدا کیساتھ کرنی چاہیے نہ کہ ابلیس کے ساتھ۔

پس نتیجے کے طور پر، ابلیس کے خلاف رُوحانی جنگ میں فتح یاب ہونے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ایسے میں ہم ہمیشہ ہی خُدا کی قدرت پر بھروسہ کئے ہوتے ہیں نہ کہ ہماری اپنی طاقت پر۔ ہمیں خُدا کے سب ہتھیار باندھ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں خُدا کے زندہ کلام سے قوت حاصل کرتےرہنے کی ضرورت ہے – خُدا کا کلام رُوح کی تلوار ہے۔ ہمیں مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کے ساتھ پاکیزگی میں دُعا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی التجا خُدا کے حضور پیش کر سکیں۔ ہمیں خُدا کی مدد سے ثابت قدم رہنا ہے (افسیوں 6باب13-16 آیات)۔ ہمیں خود کو خُدا کی ذات کے تابع رکھنا ہے، ہمیں ابلیس کے ہر طرح کے کاموں کے خلاف مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے (یعقوب 4 باب7 آیت)، یہ جانتے ہوئے کہ لشکروں کا خُدا ہمارا محافظ ہے۔ "وُہی اکیلا میری چٹان اور میری نجات ہے۔ وُہی میرا اُونچا بُرج ہے ۔ مُجھے زِیادہ جنبش نہ ہو گی۔"(62زبور 2 آیت)

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

رُوحانی جنگ کے بارے میں بائبل کیا کہتی ہے ؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries