آستر کی کتاب
مصنف: آستر کی کتاب خصوصی طور پر اپنے مصنف کا نام بیان نہیں کرتی۔ مقبولِ عام روایات کے مطابق اِس کے مصنفین کی فہرست میں مردؔکی (اِس کتاب کا ایک نمایاں کردار)، عزرا اور نحمیاہ (جو فارس کے رسوم و رواج سے واقف تھے۔) شامل ہیں۔سنِ تحریر: آستر کی کتاب غالباً 460 قبل از مسیح اور 350 قبل از مسیح کے درمیانی دَور میں لکھی گئی تھی۔
تحریر کا مقصد: اِس کتاب کی تحریر کا مقصد خُدا کی دستگیری کے بارے میں آگاہی دینا ہے، خصوصی طور پر خُدا کے چُنے ہوئے لوگوں یعنی اسرائیل کے تعلق سے۔ آستر کی کتاب عیدِ پوریم کے قیام کا ریکارڈ بیان کرتی ہے اور ساتھ بیان کرتی ہے کہ یہودیوں پر اِسے ہمیشہ تک منانے کی ذمہ داری کیوں ہے۔ ہر عیدِ پوریم کے موقع پر آستر کی کتاب کو پڑھا جاتا ہے تاکہ یہودی قوم کی اُس عظیم مخلصی کو یاد کیا جا سکے جسے خُدا نے آستر کے ذریعے سے ممکن بنایا۔ یہودی آج کے دن تک عیدِ پوریم کے موقع پر آستر کی کتاب کو پڑھتے ہیں۔
کلیدی آیات: آستر 2 باب 15 آیت: "جب مرد کی کے چچا ابیخیل کی بیٹی آستر کی جسے مرد کی نے اپنی بیٹی کر کے رکھّا تھا بادشاہ کے پاس جانے کی باری آئی تو جو کچھ بادشاہ کے خواجہ سرا اور عورتوں کے محافظ ہیجا نے ٹھہرایا تھا اُس کے سوا اُس نے اَور کچھ نہ مانگا اور آستر اُن سب کی جن کی نِگاہ اُس پر پڑی منظورِ نظر ہُوئی۔"
آستر 4 باب 14آیت: "کیونکہ اگر تُو اِس وقت خاموشی اِختیار کرے تو خلاصی اور نجات یہودیوں کے لیے کسی اَور جگہ سے آئے گی پر تُو اپنے باپ کے خاندان سمیت ہلاک ہو جائے گی اور کیا جانے کہ تُو اَیسے ہی وقت کے لئے سلطنت کو پہنچی ہے؟"
آستر 6 باب 13آیت: "اور ہامان نے اپنی بیوی زرِش اور اپنے سب دوستوں کو ایک ایک بات جو اُس پر گذری تھی بتائی ۔ تب اُس کے دانش مندوں اور اُس کی بیوی زرِ ش نے اُس سے کہا اگر مرد کی جس کے آگے تُو پست ہونے لگا ہے یہودی نسل میں سے ہے تو تُو اُس پر غالب نہ ہو گا بلکہ اُس کے آگے ضرور پست ہوتا جائے گا۔"
آستر 7باب 3 آیت: "آستر ملکہ نے جواب دِیا اَے بادشاہ اگر مَیں تیری نظر میں مقبول ہوں اور بادشاہ کو منظور ہو تو میرے سوال پر میری جان بخشی ہو اور میری درخواست پر میری قوم مجھے ملے۔"
مختصر خلاصہ: آستر کی کتاب کو تین نمایاں حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 1 باب 1 آیت تا 2 باب 8 آیت: آستر کو وشتی ملکہ کی جگہ پر ملکہ بنایا جاتا ہے؛ 2 باب 19 آیت تا 7 باب 10 آیت: مردکی ہامان کی چالاکی سے بچ کر اُس پر غالب آتا ہے؛ 8 باب 1 آیت تا 10 باب 3آیت: یہودی ہامان کے پوری یہودی قوم کو ہلاک کرنے کے منصوبے سے بچ جاتے ہیں۔ جس وقت آستر کو معلوم ہوا کہ اُس کی ساری قوم کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہے تو اُس نے اپنی جان کی بازی لگا کر قوم کو بچانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ آستر نے اپنی شخصی رضامندی سے وہ کام کیا جو انتہائی خطرناک تھا اور اُس نے اپنے شوہر یعنی اخسویرس بادشاہ کی سلطنت کے دوسرے طاقتور ترین شخص یعنی ہامان کو ایک بہت اچھی ترکیب کے ذریعے سے شکست دی۔ وہ ہامان کے سامنے بہت ہی قابل اور ذہین مخالف کے طور پر آئی لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اُس نے اپنے شوہر یعنی شاہِ اخسویرس کے رتبے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بڑی حلیمی اور قابلِ عزت رویے کو برقرار رکھا۔
آستر کی کہانی بڑی حد تک پیدایش 41 باب میں بیان کردہ یوسف کی کہانی سے ملتی جلتی ہے۔ دونوں کہانیوں میں غیر اقوام کے بادشاہوں کا ذکر ہے جو یہودیوں کی زندگیوں میں اختیار رکھتے تھے۔ دونوں ہی کہانیوں میں اسرائیلی قوم کے ایک ہیرو کی زندگی کے بارے میں بیان کیا گیا ہے جو اپنے لوگوں کی مخلصی کے لیے خاص اقدامات کرتا ہے۔ یہاں پر جو بہت ہی خراب صورتحال نظر آتی ہے اُس سب میں خُدا کا ہاتھ بہت ہی نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بُری ترین صورتحال بھی خُدا کے اختیار میں ہے اوربُری ترین صورتحال میں بھی خُدا اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہ کچھ بھلائی پیدا کرتا ہے۔ اِس ساری کہانی کے مرکز میں یہودیوں اور عمالیقیوں میں ایک خاص اور واضح تقسیم کو دیکھا جا سکتا ہے جس کا آغاز خروج کی کتاب میں ہوا تھا۔ ہامان کا اقدام در اصل یہودیوں کا مکمل صفایا کرنے کی وہ آخری کوشش تھی جس کا ریکارڈ ہمیں پرانے عہد نامے میں ملتا ہے۔ اُس کے اِس منصوبے کا انجام اُس کی اپنی سزائے موت کی صورت میں نکلا، مزید برآں مردکی کو ہامان کے عہدے پر سربلند کر دیا گیا اور یہودیوں کو ہامان کے بُرے منصوبے سے خلاصی بھی مل گئی۔
عید منانا اِس کتاب کے بڑے موضوعات میں سے ایک ہے: اِس کتاب میں سات ضیافتوں کا ذکر ہے (آستر 1 باب 3، 9 آیات؛ 2 باب 18آیت؛ 5 باب 4-5آیات؛ 7 باب 1-2آیات؛ 8 باب 17آیت اور 9 باب 17-22آیات)، اور اِن ضیافتوں کے حوالے سے بہت ساری چیزوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، کئی سازشیں تیار کی گئیں اور کئی سازشوں کے پول بھی اِن ضیافتوں میں کھلے تھے۔ اگرچہ اِس کتاب میں خُدا کے نام کا ایک بھی بار ذکر نہیں ہوا لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ جس وقت سوسن کے یہودیوں نے روزہ رکھ کر دُعا کی تو اُس وقت وہ خُدا کی طرف سے خاص مدد کے طلبگار تھے (آستر 4 باب16آیت)۔ اِس حقیقت کے باوجود کہ مادیوں اور فارسیوں کے قوانین کے مطابق یہودیوں کی موت کا پروانہ لکھا جا چکا تھا اور اُس حکم کو نہ تو تبدیل کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی روکا جا سکتا تھا، لیکن خُدا نے اُن کی دُعاؤں کا جواب دیا اور اُن کی خلاصی کا راستہ صاف ہو گیا۔ آستر نے بادشاہ کی طرف سے بلائے جانے یا طلب کئے جانے کے بغیر ایک نہیں بلکہ دو دفعہ اُسکی حضوری میں جا کر اپنی جان کو داؤ پر لگایا (آستر 5 باب 1-2 آیات؛ 8 باب 3 آیت)۔ آستر کا حتمی مقصد ہامان کی ہلاکت نہیں بلکہ اپنے لوگوں کا تحفظ تھا ۔ عیدِ پوریم کے قیام اور اِس کو منانے کے بارے میں سارے شواہد اور حقائق کو محفوظ کر کے لکھا گیا اور اِس عید کو آج کے دن تک منایا جاتا ہے۔ خُدا کے چنے ہوئے لوگ اِس کتاب میں واضح طور پر اُس کے نام کے ذکر کے بغیر آستر کی حلیمی اور حکمت کی بدولت ہلاکت کے شاہی حکم اور اعلان کے باوجود بچائے گئے۔
پیشن گوئیاں: آستر کی کتاب میں ہم جو منظر دیکھتے ہیں وہ دراصل شیطان کی پردے کے پیچھے کی وہ کاروائی ہے جو وہ مسلسل طور پر خُدا کے مقاصد اور بالخصوص موعودہ مسیحا کے خلاف کر رہا تھا۔ جس وقت اسرائیلی قوم وجود میں آئی اُسی وقت نسلِ انسانی میں مسیحا کے آنے کے بارے میں پیشن گوئی کر دی گئی تھی۔ جس طرح ہامان نے بنی اسرائیل قوم کے خلاف منصوبہ بنایا تاکہ وہ ساری قوم کو ہلاک کرے، بالکل اِسی طرح شیطان بھی مسیح اور اُس کے لوگوں کی ہلاکت کا منصوبہ بناتا ہے۔ جس طرح ہامان اُسی سولی پر چڑھا دیا گیا جو اُس نے مردکی ے لیے تیار کروائی تھی، اُسی طرح مسیح نے بھی اُسی ہتھیار کو جو اُس کے دشمن نے اُسکے اور اُسکے لوگوں کے لیے تیار کیا تھا اُسی دشمن کے خلاف استعمال کیا۔ کیونکہ یہ صلیب ہی ہے جس کو ابلیس نے مسیحا کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن یسوع نے اُسی صلیب کی مدد سے "حکموں کی وہ دستاویز مٹا ڈالی جو ہمارے نا م پر اور ہمارے خلاف تھی اور اُس کو صلیب پر جڑ کر سامنے سے ہٹا دیا۔ اُس نے حکومتوں اور اختیاروں کو اپنے اوپر سے اُتار کر اُن کو برملا تماشا بنایا اور صلیب کے سبب سے اُن پر فتح یابی کا شادیانہ بجایا۔ "(کلسیوں 2 باب 14-15آیت)۔ جس طرح ہامان اُسی سولی پر لٹکا دیا گیا تھا جو اُس نے مردکی کے لیے بنوائی تھی ، اُسی طرح ابلیس بھی اُسی صلیب کے نیچے کچلا گیا جو اُس نے یسوع کی ذات کو تباہ کرنے کے لیے کھڑی کی تھی۔
عملی اطلاق: آستر کی کتاب ہماری مدد کرتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے حالات کے اندر خُدا کے ہاتھ اور محض اتفاق کو دیکھ کر اُس میں فرق کر سکیں۔ خُدا اِس کائنات کا واحد قادرِ مطلق خالق ہے اور ہم پُر یقین ہو سکتے ہیں کہ بدکار انسانوں کی کوششوں کی بدولت خُدا کے منصوبے کبھی بھی ختم نہیں ہونگے۔ اگرچہ اِس کتاب کے اندرخُدا کے نام کا ذکر موجود نہیں ہے لیکن اُس کی طرف سے اپنے لوگوں کے لیے شخصی اور قومی دستگیری کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بادشاہ اخسویرس کی بے خوابی اور بے چینی کے اُس وقت میں خُدا کے ہاتھ کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جب بادشاہ نے تواریخ کی کتابوں کو منگوایا اور وہ اُس کے سامنے پڑھی گئیں۔ مردکی اور آستر کے ذریعے سے ہمارا آسمانی باپ اکثر محبت کی خاموش زبان کو استعمال کرتے ہوئے ہماری رُوحوں کیساتھ کلام کرتا ہے جیسا کہ اِس کتاب میں دکھایا گیا ہے۔
آستر کے کردار میں خُدا پرستی پائی جاتی تھی اور اُس کی رُوح میں سیکھنے کی لگن موجود تھی اور یہ چیزیں اُس کی ذات کے اندر تابعداری کے لیے رضا مندی کو ظاہر کرتی ہیں۔ جتنے بھی لوگ آستر کے اردگرد تھے اُن سب میں آستر کی حلیمی کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اُسے سرفراز کر کے ملکہ کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ آستر ہمیں بتاتی اور سکھاتی ہے کہ مشکل ترین حالات کے اندر بھی جہاں پر ہم سمجھتے ہیں کہ شاید انسانی نقطہ نظر سے حلیم رہنا اور دوسروں کے ساتھ احترام کا برتاؤ کرنا ممکن نہیں، حلیم اور دوسروں کے لیے عزت کا مظاہر کرنے سے ہم نہ صرف اپنے لیے بلکہ بہت سارے دیگر لوگوں کے لیے بھی برکت کا باعث بنتے ہیں۔ اگرچہ ہم زندگی کے سب معاملات میں آستر کی مثال کو اپنا سکتے ہیں لیکن سب سے بڑھ کر مشکل حالات کے اندر وہ ہمارے لیے ایک مثالی کردار ہے۔ اِس کتاب میں ایک بھی بار آستر کی ذات کے تعلق سے کسی شکایت یا بُرے رویے کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ لیکن ہم یہ کئی ایک دفعہ پڑھتے ہیں کہ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کی نظر میں مقبول ٹھہری۔ اُس کا اِس طرح سے مقبول ہونا ہی وہ چیز تھی جس کی بدولت وہ اور اُسکی قوم ہلاکت سے بچائی گئی۔ اگر ہم آستر کی طرح مشکل حالات اور ایذا رسانی میں ثابت قدم رہیں، اپنے رویوں کو مثبت رکھیں اور حلیمی اختیار کرتے ہوئے بڑے عزم کے ساتھ خُدا پر انحصار کرتے رہیں تو ہم بھی اِسی طرح مقبول ٹھہر سکتے ہیں۔ کسے معلوم کہ شاید خُدا نے ہماری زندگی کے اندر مشکل حالات کو اِسی لیے آنی کی اجازت دی ہو۔
English
پُرانے عہد نامے کا جائزہ
اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں
آستر کی کتاب