ایوب کی کتاب
مصنف: ایوب کی کتاب نمایاں یا خصوصی طور پر اپنے مصنف کا نام بیان نہیں کرتی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اِس کتاب کے موزوں یا متوقع مصنف ہونے کی فہرست میں ایوب، الیہو، موسیٰ اور سلیمان شامل ہیں۔سنِ تحریر: ایوب کی کتاب ہمیں مندرجہ ذیل اہم باتوں کے بارے میں جاننے اور اُنہیں سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے: شیطان ہم پر مالی اور جسمانی مصیبتیں اُس وقت تک نہیں لا سکتا جب تک اُس کو خُدا کی طرف سے ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ شیطان کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا اِس سب پر بھی خُدا کی ذات کو اختیار حاصل ہے۔ ہم اِس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اِس دُنیا میں جتنا بھی دُکھ اور تکالیف ہیں وہ "کیوں" آتی ہیں۔ یقیناً ہر ایک دُکھ تکلیف کے پیچھے یہی سوال ہوتا ہے کہ یہ کیوں ہے۔ بدکار لوگ اپنے کاموں کی سزا پائیں گے۔ ہم اپنی طرزِ زندگی اور اُس کےردِ عمل میں ہونے والی چیزوں کو لیکر اُن کا الزام ہمیشہ گناہ اور مصیبتوں پر نہیں لگا سکتے۔ بہت دفعہ ہماری زندگیوں میں مصیبتوں کو ہماری تقدیس، ہماری آزمائش، ہماری تعلیم و تربیت یا پھر ہماری رُوحانی مضبوطی کے لیے آنے دیا جاتا ہے۔ ہر ایک صورتحال میں خُدا کی ذات کافی ہوتی ہے اور وہ ہماری زندگی کے ہر ایک طرح کے حالات میں ہماری ساری پرستش،حمدو ستائش کی مستحق ہے اور اُسی کے سامنے ہماری ساری درخواستیں پیش کی جانی چاہییں۔
کلیدی آیات: ایوب 1 باب 1 آیت: "عُو ض کی سرزمین میں ایوب نام ایک شخص تھا ۔ وہ شخص کامل اور راستباز تھا اور خُدا سے ڈرتا اور بدی سے دُور رہتا تھا۔"
ایوب 1 باب21 آیت: "اور کہا ننگا مَیں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگاہی واپس جاؤں گا ۔ خُداوند نے دِیا اور خُداوند نے لے لیا ۔ خُداوند کا نام مُبارک ہو۔"
ایوب 38 باب 1-2آیات: " تب خُداوند نے ایوب کو بگولے میں سے یُوں جواب دیا، یہ کون ہے جو نادانی کی باتوں سے مصلحت پر پردہ ڈالتاہے؟"
ایوب 42 باب 5-6آیات " مَیں تیری منت کرتا ہوں سُن ۔ مَیں کچھ کہوں گا ۔ مَیں تجھ سے سوال کروں گا ۔ تُو مجھے بتا۔مَیں نے تیری خبر کان سے سنی تھی پر اب میری آنکھ تجھے دیکھتی ہے"
مختصر خلاصہ: ایواب کی کہانی کا آغاز ایک آسمانی منظر کے ساتھ ہوتا ہے جہاں پر شیطان خُدا کے سامنے ایوب پر الزام لگانے کے لیے آتا ہے۔ وہ اِس بات پر زور دیتا ہے کہ ایوب خُدا کی خدمت صرف اِس لیے کرتا ہے کیونکہ خُدا اُس کی حفاظت کرتا ہے ، لہذا شیطان خُدا سے اجازت طلب کرتا ہے کہ وہ ایوب کو آزمائش میں ڈال کر اُس کے ایمان اور وفاداری کا امتحان لے۔ خُدا شیطان کے لیے ایوب کی آزمائش کے تعلق سے کچھ حد بندیاں مقرر کرنے کے بعداُسے اجازت دے دیتا ہے۔ جب ایوب اپنے خاندان، دولت اور اپنی صحت کو گنوا بیٹھتا ہے تو سوال یہ اُٹھتا ہے کہ راستباز کیوں دُکھ اٹھاتے ہیں؟ایوب کے تین دوست بنام الیفز، بِلدد اور ضوفر اُس کو تسلی دینے اور اُس پر ہو گزرنے والےاِن انتہائی دُکھ بھرے سانحات کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے آتے ہیں۔ وہ اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایوب کی ساری مصیبتیں اُس کی زندگی میں پائے جانے والے گناہ کی وجہ سے آئی ہیں۔ اِس ساری گفتگو میں ایوب اگرچہ خُد اپر تکیہ کئے رکھتا ہے، وہ اُن کے سامنے اِس بات کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اُس کی زندگی گناہ آلودگی میں نہیں گزر رہی تھی۔ اِس ساری گفتگو میں ایک چوتھا شخص الیہو شامل ہوتا ہے جو ایوب کو بتاتا ہے کہ اُسے حلیم ہو کر اپنے آپ کو خُدا کے سپرد کرنے کی ضرورت ہے اور اُسے چاہیے کہ وہ خُدا کو اپنی اِس ساری مصیبت کے ذریعے سے تقدیس کرنے دے۔ بالآخر ایوب خُدا سے براہِ راست سوال کرتا ہے اور خُدا کی حاکمیت اور اپنی طرف سے خُدا پر مکمل انحصار اور بھروسہ کرنے کی ضرورت کے بارے میں بہت ہی اہم سبق سیکھتا ہے۔ ایوب کو پھر خُدا کی طرف سے بحال کر دیا جاتا ہے اور پھر وہ پہلے سے بہت زیادہ اچھی صحت، زیادہ خوشی اورخوشحالی پاتا ہے۔
پیشن گوئیاں: جس وقت ایوب اپنی مصیبت کی وجہ پر غورو خوص کر رہا تھا تو اُس کے ذہن میں تین سوال آئے جن تینوں سوالات کے جوابات صرف اور صرف خُداوند یسوع مسیح کی ذات میں ملتے ہیں۔ یہ سوالات ایوب کی کتاب کے 14 باب کے اندر ملتے ہیں ۔ آیت نمبر 4 میں ایوب پہلا سوال پوچھتا ہے کہ "ناپاک چیز میں سے پاک چیز کون نکال سکتا ہے؟ کوئی نہیں!" ایوب کا یہ سوال ایک ایسے دل سے آتا ہے جو اِس بات کو جانتا ہے کہ وہ کبھی بھی ممکنہ طورپر اپنی کوششوں سے خُدا کو خوش نہیں کرسکتا اور نہ ہی خود خُدا کی نظر میں راستباز ٹھہر سکتا ہے۔ خُدا پاک ہے؛ ہم پاک نہیں ہیں۔ اِس لیے گناہ کی وجہ سے انسان اور خُدا کے درمیان میں ایک بہت بڑی خلیج حائل ہے۔ لیکن ایوب کے اِس تشویشناک سوال کا جواب یسوع مسیح کی ذات میں ملتا ہے۔ اُس نے ہماری ساری ناراستی کی قیمت کو ادا کر دیا ہے اور گناہ کے بدلے ہمیں اپنی راستبازی عطا کی ہے، اور یوں اُس نے ہمیں خُدا باپ کی حضوری میں قابلِ قبول بنا دیا ہے(عبرانیوں 10 باب 14آیت؛ کلسیوں 1 باب 21-23آیات؛ 2 کرنتھیوں 5 باب 17آیت)۔
ایوب کا دوسرا سوا یہ تھا کہ "لیکن انسان مر کر پڑا رہتا ہے بلکہ انسان دَم چھوڑ دیتا ہے اور پھر وہ کہاں رہا؟" (آیت 10)۔ یہ سوال بھی ابدیت اور زندگی و موت کے بارے میں ہے جس کا جواب صرف اور صرف خُداوند یسوع مسیح کی ذات میں ملتا ہے۔جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ "وہ کہاں رہا؟" تو یسوع مسیح کی ذات کے حوالے سے اِس کا جواب ہے کہ اگر وہ شخص یسوع پر ایمان لاتا ہے تو وہ آسمان پر ابدی زندگی پاتا ہے۔لیکن یسوع کے بغیر اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسے شخص کی ابدیت "باہر اندھیرے میں" ہوگی جہاں رونا اور دانتوں کا پیسنا ہوگا (متی 25 باب 30آیت)۔
ایوب کا تیسرا سوال 14آیت کے اندر پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ "اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟" ایک بار پھر اِس کا جواب یسوع مسیح میں ہی ملتا ہے۔ اگر ہم اُس میں جیتے ہیں تو پھر ہم لازمی اور یقینی طور پر پھر جیئں گے۔ " اور جب یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہن چکے گا اور یہ مَرنے والا جسم حیاتِ ابدی کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قَول پُورا ہو گا جو لکھا ہے کہ مَوت فتح کا لُقمہ ہو گئی۔اَے مَوت تیری فتح کہاں رہی؟ اَے مَوت تیرا ڈنک کہاں رہا؟" (1 کرنتھیوں 15 باب 54-55آیات)۔
عملی اطلاق: ایوب کی کتاب ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اِس کائنات کے اندر پس پردہ ایک بہت بڑی کشمکش چل رہی ہے جس کے بارے میں ہم حقیقت میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ بہت دفعہ ہم اِس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ خُدا کیوں ایسی چیزوں کو وقوع پذیر ہونے دیتا ہے اور ہم کئی دفعہ پوری تصویر کو دیکھے بغیر یا پوری حقیقت کو جانے بغیر خُدا کی اچھائی اور بھلائی پر یا تو سوال اُٹھانا شروع کر دیتے ہیں یا پھر اُس پر شک کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایوب کی کتاب ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم ہر طرح کے حالات کے اندر خُدا پر بھروسہ رکھیں۔ ہمیں ہمیشہ خُدا پر بھروسہ کرنا چاہیے نہ صرف اُس وقت "جب" ہم چیزوں کو اچھی طرح سے سمجھ نہیں پا رہے ہوتے ، بلکہ اِس لیے کہ ہم اکثر چیزوں کو "نہیں " سمجھ پا رہے ہوتے۔ زبور نویس ہمیں بتاتا ہے کہ " لیکن خُدا کی راہ کامِل ہے۔ خُداوند کاکلام تایا ہوا ہے۔ وہ اُن سب کی سِپر ہے جو اُس پر بھروسہ رکھتے ہیں۔" (18 زبور 30آیت)۔ اگر خُدا کی راہ کامل ہے تو پھر ہم اِس بات پربھروسہ کر سکتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے یا جو کچھ ہونے کی بھی اجازت دیتا ہے وہ سب کامل ہے۔ بہت دفعہ ہمارے نزدیک شاید اِس بات کو ماننا ممکن نہ ہو لیکن ہمارے ذہن اور خُدا کے ذہن میں فرق ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم اُس کے ذہن کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتے جیسا کہ وہ ہمیں اِس بات کے بارے میں باور بھی کرواتا ہے،" خُداوند فرماتا ہے کہ میرے خیال تمہارے خیال نہیں اور نہ تمہاری راہیں میری راہیں ہیں۔کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اُسی قدر میری راہیں تمہاری راہوں سے اور میرے خیال تمہارے خیالوں سے بُلندہیں" (یسعیاہ 55 باب 8-9آیات)۔ بہرکیف خُدا کی ذات کے تعلق سے ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اُس پر بھروسہ کریں، اپنے آپ کو اُسکی پاک مرضی کے تابع کر دیں چاہے ہمیں اُس وقت اُس کی سمجھ آ رہی ہو یا نہیں۔
English
پُرانے عہد نامے کا جائزہ
اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں
ایوب کی کتاب