سوال
مَیں کسی نوعمر کی پرورش کرنے کی اپنی کوشش میں کیسے قائم رہ پاؤں ؟
جواب
بہت سے مسیحی والدین سوچتے ہیں کہ کیا وہ کسی نوجوان کی پرورش کرنے کی اپنی کوشش میں قائم رہ پائیں گے یا نہیں ۔ نو جوانوں میں عام طور کچھ مشترکہ خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔ پہلی یہ کہ وہ زندگی کے اُس مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں جہاں انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں اور جو کچھ وہ نہیں جانتے اُسے جاننا ضروری نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ اُن کے دماغ اور جسم میں گردش کرنےوالے ہارمونز اور کیمیکل اُن کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہوئے اکثر انہیں کسی باشعور بالغ کی طرح استدلال کرنے سے قاصر رکھتے ہیں۔ و ہ جس چیز کی خواہش کرتے ہیں اُسے اُسی وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں جب اُنکا دِل چاہتا ہے اور اکثر اس بات کی کچھ سمجھ نہیں رکھتے کہ وہ جو کچھ مانگ رہے ہیں وہ اُن کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ یہ والدین کا کام ہے کہ جب بچّے زندگی کے اس مشکل دور کا سامنا کر رہے ہوں تو وہ اُنہیں اُن کے اپنے نقصان دہ فیصلوں سے محفوظ رکھیں ۔
جب خُداوند یسوع متی 7باب 9-10آیات میں فرماتا ہے کہ " تم میں اَیسا کَون سا آدمی ہے کہ اگر اُس کا بیٹا اُس سے روٹی مانگے تو وہ اُسے پتّھر دے؟ یا اگر مچھلی مانگے تو اُسے سانپ دے؟" تو وہ ہمیں یہی سکھاتا ہے۔ بعض اوقات بچّے ایسی چیزیں مانگتے ہیں جو انہیں اچھی لگتی ہیں لیکن جوحقیقت میں اُنہیں نقصان پہنچائیں گی، لہذا یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے قدم اُٹھائیں جو بہتر ہوں ۔ ہمارے لیے بھی ایسے ہی اصول ہیں- اگر ہم خدا سے کوئی ایسی چیز مانگتے ہیں جو ہمارے نزدیک اچھی ہے لیکن خدا جانتا ہے کہ ہمارے حق میں اچھی نہیں تو وہ ہمیں عطا نہیں کرے گا۔
اپنی خاندانی زندگی میں خُداوند یسوع کو شامل رکھنا بچّوں کی پرورش کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ "لڑکے کی اُس راہ میں تربیّت کر جس پر اُسے جانا ہے۔ وہ بُوڑھا ہو کر بھی اُس سے نہیں مُڑے گا"(امثال 22باب 6آیت)۔ اگر آپ نے خُداوند یسوع کو قبول کرتے وقت اُسے اپنی زندگی میں آنے کی دعوت دی ہے تو رُوح القدس آپ کی زندگی میں بسا ہوا ہے اور آپ کو سب باتوں کے بارے میں سکھائے گا (یوحنا 14باب 26آیت ؛ 1 یوحنا 2باب 27آیت ) اور اِس میں ہمارے بچّوں کی پرورش کا طریقہ بھی شامل ہے۔ہم بچّوں کو جو کچھ کہتے ہیں اِس کی نسبت وہ اِس سے کہیں زیادہ جو کچھ ہمیں کرتا دیکھتے ہیں اُس سے سیکھتے ہیں ، اس لیے ایک اچھا نمونہ بننا بہت ضروری ہے۔
بائبل ہمیں تربیت کی اہمیت کے بارے میں سکھاتی ہے۔ "وہ جو اپنی چھڑی کو باز رکھتا ہے اپنے بیٹے سے کینہ رکھتا ہے پر وہ جو اُس سے مُحبّت رکھتا ہے بروقت اُس کو تنبیہ کرتا ہے" (امثال 13باب 24آیت )۔ " جب تک اُمّید ہے اپنے بیٹے کی تادِیب کئے جا اور اُس کی بربادی پر دِل نہ لگا"(امثال 19 باب 18آیت )۔ "اپنے بیٹے کی تربیّت کر اور وہ تجھے آرام دے گا اور تیری جان کو شادمان کرے گا"(امثال 29باب 17آیت )۔ قوانین مرتب کرنا اور اُن پر عمل درآمد کرنا بہت ضروری ہے۔ جب بچّے جانتے ہیں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں غلط ہے تو اس کے بعداُنہیں کسی نہ کسی طرح کی سزا ضرور ملنی چاہیے لیکن یہ سزا "غلطی " کی مناسبت سے ہونی چاہیے۔ جھوٹ بولنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ بچّے پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا لہذااعتماد کے بحال ہونے تک اُنہیں گھر سے نکال دینے کا وقت بہت محدود ہونا چاہیے۔ وہ چاہیں گے کہ آپ دوبارہ اُن پر اعتماد کریں اور یوں وہ اِس بات سے سیکھیں گے۔ ہم سب سے بُرا کام یہ کرسکتے ہیں کہ والدین بننے کی بجائے اپنے بچّوں کا دوست بننے کی کوشش کریں ۔
تربیت ہمیشہ بچّے کے بہترین مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے حوصلہ افزائی کے طور پر کی جانی چاہیے۔ افسیوں 6باب 4آیت بیان کرتی ہے کہ ہم نے اپنے بچّوں کے ساتھ اپنےبرتاؤ کے ذریعے اُنہیں مشتعل نہیں کرنا ہے (اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُن کی تربیت نہ کریں؛ بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ غصے یا مایوسی میں تربیت نہ کریں ) بلکہ ایسی تربیت اور نصیحت کے ساتھ اُن کی پرورش کریں جو خداوند کو پسند ہے ۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اپنے بچّے کوآگاہ کر رہے ہیں کہ یہ برتاؤ کیوں غلط ہے، آپ کیوں اُس سے متفق نہیں ہیں اور یہ کہ آپ اُس کے لیے محبت کے پیش ِ نظر ایسا کر رہے ہیں۔ عبرانیوں 12باب 7آیت ہمیں بتاتی ہے کہ جب ہم کچھ غلط کرتے ہیں تو خُدا اپنے تمام بچّوں کی تنبیہ کرتا ہے کیونکہ وہ ہم سے پیار کرتا ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرتا تو یہ ہمارے لیے بہتر نہ ہوتا۔ جب بچّے سزا ملنے پر بحث کرتے ہیں جو کہ وہ لازمی طور پر کریں گے تو سمجھدار والدین اُنہیں یوں جواب دیتے ہیں کہ "آپ کی تربیت کرنا میری ذمہ داری ہے اور اگر مَیں ایسا نہیں کرتا تو مجھے خدا کے حضور جواب دینا ہوگا۔ اور وہ مجھ سے زیادہ سخت تنبیہ کرنے والا ہے!"
آخر میں، نو عمر لوگوں کی پرورش کرنے کے عمل میں قائم رہنے کے لیے کئی باتیں اہم ہیں: حسِ مزاح، اس یقین کا احساس کہ آپ صحیح کام کر رہے ہیں، خدا کے کلام میں موجود اُس کی حکمت پر بھروسہ اور دُعا، دُعا، دُعا! یہ باتیں نہ صرف والدین کی "قائم رہنے" میں مدد کریں گی بلکہ انہیں بطورِ اچھے والدین ایک نمونہ بننے میں بھی مدد کریں گی جسے نو جوان بالآخر اُس وقت استعمال کریں گےجب وہ خود والدین بنیں گے ۔
English
مَیں کسی نوعمر کی پرورش کرنے کی اپنی کوشش میں کیسے قائم رہ پاؤں ؟