سوال
اقوام کی فہرست کیا ہے ؟
جواب
پیدایش کی کتاب کا 10باب جسے عام طور پر اقوام کی فہرست کے نام سے جانا جاتا ہے ستر قوموں کےاُن بانی بزرگوں کا ذکر کرتا ہے جو نوحؔ کے تین بیٹوں، سم ، حام اور یافت کی اولاد سے تھے۔ ستر میں سے چھبیس بزرگ سم سے، تیس حام سے اور چودہ یافت کی اولاد سے تھے۔ پیدایش 10باب 32آیت اِس پورے باب کو مختصراً بیان کرتی ہے: " نُوحؔ کے بیٹوں کے خاندان اُن کی گروہوں اور نسلوں کے اِعتبار سے یہی ہیں اورطوفان کے بعد جو قومیں زمین پر جا بجا منقسم ہُوئیں وہ اِن ہی میں سے تھیں۔"11 باب بابل میں اُن کی تقسیم کا ذکر کرتا ہے۔
گوکہ متن صریحاً ایسا کبھی نہیں کہتا مگر یہ اشارہ کرتا معلوم ہوتا ہے کہ فہرست کا مقصد ایک جامع تفصیل پیش کرنا تھا۔ اِسے روایتی طور پر اس طرح سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بہر حال یہ تشریح خیالی ہے۔
بائبل کے تمام نسب نامے مختصر اور جامع ہیں ۔ اہم تاریخی شخصیات کو شامل کیا گیا ہے جبکہ "کم اہم " یا ثقافتی لحاظ سے غیر متعلقہ خونی رشتوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ممکن ہے اقوام کی فہرست کے معاملے میں ایسا ہی ہو۔ فہرست کے مرتب کرنے والے نے فہرست کی تالیف کے وقت دیگر دور دراز یا شاید طویل عرصے سے فراموش کی گئی اقوام کے بانیوں کو نظر انداز کر تے ہوئے اپنے مطالعہ کو اُن اقوام پر مرکوز کیا ہو جو اُس کی اپنی قوم کے نزدیک سب سے زیادہ اہم ہیں ۔ جبکہ نوح کے وسیلے ہر قوم دوسری قوم سے جوڑی ہوئی ہے مگر یہ آبائی تعلق اُن کی اولاد میں باہمی ثقافتی اہمیت کو بہت زیادہ لمبے عرصے تک برقرار نہیں رکھتا ۔
فہرست میں شامل کچھ قومیں آسانی سے قابل شناخت ہیں جبکہ کچھ غیر واضح ہیں۔ متعدد علماء نے اُن نامعلوم قوموں کی شناخت کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں ۔ ماخذ مواد کی قدیم نوعیت کی وجہ سے ابھی بھی کافی ابہام باقی ہیں۔
فہرست کی درستگی پر اس حقیقت کے پیشِ نظر سوال کیا جاتا رہا ہے کہ بیان کیے گئے کچھ تعلقات جدید تقابلی لسانیات سے میل نہیں کھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ عیلامی لوگ سم کی نسل سے تھے مگر اُن کی زبان سامی نہیں تھی۔ کنعانیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حام کی نسل سے تھے تاہم اُن کی زبان سامی تھی۔
یہ اعتراض کرنے والوں کا مانتا ہے کہ اِن زبانوں میں کبھی کوئی موثر تبدیلی نہیں آئی۔ اس خطے کی تاریخ یہ تجویز کرتی معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک مشتبہ مفروضہ ہے۔ خطے کی ثقافتیں نقل مکانی اور غیر ملکی طاقتوں کے حملوں کا مسلسل شکار ہوتی رہیں تھیں ۔ غالب آنے والی سلطنتیں اکثر مغلوب ہونے والوں پر اپنی زبان اور ثقافت کو مسلط کر دیتی تھیں۔
سکندر اعظم کی فتح کے بعد فارسی سلطنت کا یونانی رسم و رواج کو اپنالینا اس کی بہترین مثال ہے۔ یا بنی اسرائیل پر غور کریں جو بابل کی اسیری اور فارس کی فتح تک بنیادی طور پر قدیم عبرانی بولتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے ارامی کو اختیار کر لیا جو فارسی سلطنت کی سرکاری زبان تھی ۔ یہودی تالمود کے ساتھ ساتھ دانی ایل اور عزرا کی کتابوں کے بڑے حصے ارامی زبان میں قلمبند کئے گئے تھے ۔ ارامی کو یسوع کی مادری زبان سمجھا جاتا ہے۔ سکندر اعظم کے فارس کو فتح کرنے کے بعدیہودیوں نے یونانی کو دوسری زبان کے طور پر اپنا لیا۔ اِس کے نتیجے میں تمام نیا عہد نامہ یونانی زبان میں قلم کیا گیا ۔ خطے کی زبانیں جامد نہیں تھیں۔
عبرانیوں نے یونانیوں، فارسیوں اور بابلیوں سے بہت پہلے کنعان پر حملہ کیا اور اُسے فتح کیا۔ کیا یہ حیرت کی بات ہے کہ اُس خطے کے کنعانی لوگوں نے اُس سامی زبان کو اختیار کر لیا جو قدیم عبرانی سےلگ بھگ ملتی جلتی ہے؟ جہاں تک عیلامی لوگوں کا تعلق ہے اگر ہم عیلامی زبان کے حوالے سے دلیل دینا چاہتے ہیں تو ہمیں قدم عیلامی زبان سے شروع کرنا ہوگا۔ چونکہ قدیم عیلامی زبان کو ابھی تک سمجھا نہیں جا سکالہذا یہ اقوام کی فہرست کے خلاف دلیل کی بنیاد نہیں بن سکتی ۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بعد میں غیر سامی عیلامی کی تہہ کے نیچے قدیم عیلامی زبان دبی ہوئی ہے اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ کن کن اثرات نے زبان کو کس کس وقت تبدیل کیا ہو گا۔
اقوام کی فہرست کے خلاف ایک اور اعتراض یہ بھی ہے کہ فہرست میں شامل کئی قومیں تاریخی ریکارڈ (جیسا کہ آج ہمارے پاس موجود ہے ) میں پہلے ہزار سال قبل ازمسیح تک ظاہر نہیں ہوتیں۔ اس کی وجہ سے کچھ تنقیدی عالمین کا کہنا ہے کہ فہرست کی تاریخ ساتویں صدی قبل مسیح سے پہلے تک کی ہے۔
یہ بائبل پر بار بار کی جانے والی تنقید ہے۔ بائبل جب بھی کسی ایسے شہر یا ثقافت کا تذکرہ کرتی ہے جو تاریخی ریکارڈ میں کہیں اور نظر نہیں آتی ہے یا جب بھی یہ کسی ثقافت کو کسی ایسے دور میں پیش کرتی ہے جو ہمارے پاس پہلے سے موجود دیگر محدود ذرائع کے مقابلے میں قدیم ہے تو بجائے بائبل پر بھروسہ کرنے کے ناقدین عام طور پر فرض کر لیتے ہیں کہ بائبل کے مصنفین یا تو زمانہ ساز تھے یا پھر جاہل تھے۔ ایسا ہی معاملہ قدیم بڑے شہر نینوہ اور قدیم حتّی تہذیب کے بارے میں تھا جن دونوں کو جدید دور میں بالترتیب انیسویں اور بیسویں صدیوں میں دوبارہ دریافت کیا گیا تھا جو کہ بائبل کی تاریخی پشت پناہی کی ایک قابل ذکر تصدیق ہیں ۔ اس معاملے کے پیچھے حقیقت یہ ہے کہ قدیم ثقافتوں کے بارے میں ہمارا علم انتہائی بے ربط ہے اور اکثر اہم مفروضوں پر انحصار کرتا ہے۔ لہٰذا فرضی طور پر یہ استدلال کرنا کہ اقوام کی فہرست کو بہت عرصہ بعد قلمبند کیا گیا تھا محض اس حقیقت پر مبنی ہے کہ مذکور قوموں میں سے کچھ بعد کے تاریخی ریکارڈ کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتیں۔
ایک آخری اعتراض کا تعلق اس حقیقت کے ساتھ ہے کہ نمرود کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کوُش کا بیٹا تھا (پیدایش 10باب 8آیت) جس کے بارے میں خیال ہے کہ اُس نے مصر کے بالکل جنوب میں نوبیا کی بنیاد رکھی تھی۔ تاہم نمرود نے میسوپتامیہ میں کئی شہر قائم کیے جو نوبیا کی ابتدا کے بارے میں کوئی اشارہ پیش نہیں کرتے (پیدایش 10باب 8-12آیات)۔ کیا اِس کا مطلب یہ ہے جیسا کچھ ناقدین دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ فہرست یا تو نمرود کے نسب نامے کے متعلق اور یا پھر اُس کی طرف سے میسوپتامیہ کے شہروں کو آباد کرنےکے متعلق غلط ہے ؟
وہ متشکک لوگ جو یہ دلیل پیش کرتے ہیں اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ کوُش نے کم از کم چھ عرب قوموں کے بانیوں کو بھی جنم دیا تھا (پیدایش 10باب 7آیت)جن میں سے کوئی بھی نوبین نسل کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نوبیا نے کئی نسلوں تک اپنے ثقافتی اندازمیں ترقی کی تھی ۔ نمرود کوُش کا حقیقی بیٹا تھا۔ ہمارے پاس نمرود سے یا اُن شہروں سے جن کے قیام میں اُس نے مدد کی تھی نو بیا کی ابتدا کی طرف اشارہ کرنے کی توقع کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
مختصر یہ کہ ِ اقوام کی فہرست بائبلی اور نسلیاتی نقطہ نظر پیش کرتی ہے کہ تمام قومیں نوح سے اُس کے تین بیٹوں، سم ، حام اور یافت کی نسل سے پیدا ہوئی ہیں ۔ یہ بات معلوم نہیں ہے کہ آیا اِس فہرست کا مقصد ستر بزرگوں کی جامع فہرست بناناتھا یا پھر کچھ اقوام کو دانستہ یا حادثاتی طور پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہم فہرست کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں اس کی درستگی پر متشکک لوگ سوال اُٹھاتے رہے ہیں اور اُٹھاتے رہیں گے جن کے متنازع اعتراضات کا رجحان ناقص اور غیر حقیقی ہوتاہے ۔ ماخذ مواد کی قدیم نوعیت کی وجہ سے فہرست کی سچائی کا تعین کرنا حتمی طور پر ممکن نہیں ہے۔ آخر میں جو لوگ اِسے قبول کرتے ہیں وہ اِسے ایک وسیع اور قابل ِ جواز نقطہ نظر کا حصہ خیال کرتے ہوئے ایمان سے قبول کرتے ہیں ۔ جو لوگ اِسے مسترد کرتے ہیں وہ اِنہی وجوہات کی بناء پر ایسا کرتے ہیں۔
English
اقوام کی فہرست کیا ہے ؟