سوال
جب خُداوند یسوع نے کہا کہ 'اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے'( متی 16باب 24آیت؛ مرقس 8باب 34آیت؛ لوقا 9باب 23آیت)تو اُس کا اِس سے کیا مطلب تھا ؟
جواب
آئیے اس بات سے ابتدا کرتے ہیں کہ خُداوند یسوع کا اس سے کیا مطلب نہیں تھا۔ بہت سے لوگ "صلیب" کی تشریح کسی ایسے بوجھ کے طور پر کرتے ہیں جسے انہیں اپنی زندگی میں لازمی اٹھانا پڑتا ہے: کوئی تناؤ بھرا رشتہ، کوئی نا پسندیدہ کام ، کوئی جسمانی بیماری۔ وہ خود ترسی کا شکار ہوتے ہوئے تکبر کے ساتھ کہتے ہیں کہ "یہ میری صلیب ہے جسے مجھے اٹھانا ہے۔"ایسی کسی بھی تشریح کا وہ مطلب نہیں ہے جو اُس وقت یسوع کا تھا جب اُس نے کہا تھا کہ " اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے "
جب خُداوند یسوع مصلوب کئے جانے کے لیے اپنی صلیب اُٹھا کر گلگتا کے پہاڑ پر گیا کوئی بھی شخص صلیب کو ایک بوجھ کی علامت کے طور پر نہیں دیکھ رہا تھا۔ پہلی صدی میں کسی شخص کے لیے صلیب سے مراد صرف اور صرف ایک ہی بات تھی:اُن انتہائی تکلیف دہ اور ذلت آمیزہ طریقوں سے موت جو انسان اُس زمانے میں ایجاد کر پایا تھا۔
دو ہزار سال بعد مسیحی لوگ صلیب کو کفارے، معافی، فضل اور محبت کے ایک انمول نشان کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن خُداوندیسوع کے زمانے میں صلیب اذیت ناک موت کے سوا کچھ اور پیش نہیں کرتی تھی۔ چونکہ رومی سزا یافتہ مجرموں کو مصلوب کئے جانے کے مقام تک اپنی صلیب خود اٹھا کر لے جانے پر مجبور کرتے تھے لہذا صلیب اٹھانے کا مطلب اپنی موت کے آلہ کو اٹھا کر موت کی راہ پر جاتے ہوئے تضحیک کا سامنا کرناتھا۔
پس " اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے " کا مطلب ہےخُداوند یسوع کی پیروی کرنے کی خاطر مرنے کو تیار ہونا۔ اِسے "خودی کو ختم کرنا" کہتے ہیں۔ یہ مکمل طور پر ہتھیار ڈالنے کی بُلاہٹ ہے۔ صلیب اٹھانے کا حکم دینے کے بعدخداوند یسوع نے فرمایا"کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے وہ اُسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے وُہی اُسے بچائے گا۔ اور آدمی اگر ساری دُنیا کو حاصِل کرے اور اپنی جان کو کھو دے یا اُس کا نُقصان اُٹھائے تو اُسے کیا فائدہ ہو گا؟" (لوقا 9باب 24-25آیات ؛ متی 16باب 26آیت ؛ مرقس 8باب 35-36آیات)۔ یہ بُلاہٹ اگرچہ کٹھن ہے تاہم اس کا اجر بے مثال ہے۔
خُداوند یسوع جہاں بھی گیا اُس نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ گوکہ یہ لوگ اکثر مسیحا کے طور پر اُس کی پیروی کرتے تھے لیکن ا ِس بارے میں اُن کا نظریہ مسخ ہو گیا تھا کہ مسیحا حقیقت میں کون ہے - اور وہ کیا کرے گا ۔ اُن کا خیال تھا کہ مسیح بحال شدہ بادشاہی کی ابتدا کرے گا۔ انہیں یقین تھا کہ وہ انہیں اُن کے رومی قابضین و غاصبین کی جابرانہ حکمرانی سے آزاد کرائے گا۔ حتی ٰ کہ مسیح کے وہ شاگرد جو اندرونی حلقے میں شامل تھےاُن کا بھی یہی خیال کیا تھاکہ زمینی بادشاہی جلد قائم ہونے والی ہے (لوقا 19باب 11آیت)۔ مگر جب خُداوند یسوع نے یہ تعلیم دینا شروع کی کہ وہ یہودی رہنماؤں اور ان کے غیر قوموں کے حاکموں کے ہاتھوں مرنے والا ہے (لوقا 9باب 22آیت) تو اُس کی مقبولیت کم ہوتی گئی۔ دھچکےکے شکار پیروکاروں میں سے بہت سے لوگوں نے اُسے مسترد کر دیا۔ درحقیقت وہ اس قابل نہیں تھے کہ اپنے خیالات، منصوبوں اور خواہشات کو ترک کر سکیں اور اُن کے متبادل میں یسوع کے خیالات،منصوبوں اور خواہشات کو اپنا سکیں۔
جب زندگی آسانی سے چل رہی ہوتی ہے تو خُداوند یسوع کی پیروی کرنا آسان ہوتاہے؛ اُس کے ساتھ ہماری حقیقی وابستگی اصل میں مشکلات کے دوران عیاں ہوتی ہے۔ خُداوندیسوع نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ اُس کے پیروکاروں پر مشکلات آئیں گی (یوحنا 16باب 33آیت)۔ شاگردی قربانی کا تقاضا کرتی ہے اورخُداوند یسوع نے اس قیمت کو کبھی پوشیدہ نہیں رکھا۔
لوقا 9باب 57-62آیات میں تین لوگ خُداوند یسوع کی پیروی کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں ۔ جب اُس نے اُن سے مزید سوالات کئے تو اُن کی وابستگی محض غیر یقینی تھی۔ وہ اُس کی پیروی کرنے کی قیمت کا تخمینہ لگانے میں ناکام رہے۔ اُن میں سے کوئی بھی اپنی صلیب اٹھانے اور اپنے مفادات کو اُس پر مصلوب کرنے کو تیار نہ تھا۔
لہٰذا خُداوند یسوع اُن کواپنے پیچھے آنے سے منع کرتا معلوم ہوتا ہے ۔ یہ انجیل کی عام پیشکش سے کتنا مختلف ہے! منبر سے آنے والی اِس پکار پر کتنے لوگ ردّعمل کریں گے کہ " خُداوند یسوع کی پیروی میں آئیں اور ہو سکتا ہے کہ آپ کو اِس کے لیے دوستوں، خاندان، شہرت، روزگار اور یہاں تک کہ اپنی زندگی کا نقصان اُٹھانا پڑے "؟ یوں غیر حقیقی طور پر مسیحیت میں آنے والوں کی تعداد میں ممکنہ طور پر کمی ہو گی ۔ ایسی بُلاہٹ کا وہی مطلب ہے جوخُداوند یسوع کا اِس بات سے تھا کہ " اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔"
اگر آپ سوچتے ہیں کہ کیا آپ اپنی صلیب اٹھانے کے لیے تیار ہیں تو اِن سوالات پر غور کریں:
• "کیا آپ خداوند یسوع کی پیروی کرنے کو تیار ہیں اگر اس کا مطلب آپ کے کچھ قریبی دوستوں کو کھونا بھی ہو؟
• "کیا آپ خُداوند یسوع کی پیروی کرنے کو تیار ہیں اگر اس کا مطلب آپ کی خاندان سے لاتعلقی بھی ہو؟
• "کیا آپ خُداوند یسوع کی پیروی کرنے کو تیار ہیں اگر اس کا مطلب آپ کی شہرت کا نقصان بھی ہو؟
• "کیا آپ خُداوندیسوع کی پیروی کرنے کے لیے تیار ہیں اگر اس کا مطلب آپ کی نوکری کا خاتمہ بھی ہو؟
• "کیا آپ خُداوند یسوع کی پیروی کرنے کو تیار ہیں اگر اس کا مطلب آپ کا اپنی جان کا نقصان اُٹھا نا بھی ہو؟
دنیا کے بعض علاقوں میں یہ نتائج حقیقی طور پر پائے جاتے ہیں۔ لیکن غور کریں کہ سوالات کچھ اس طرح بیان کئے گئے ہیں کہ "کیا آپ تیار ہیں؟" یسوع کی پیروی کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ سب باتیں آپ کے ساتھ لازماً پیش آئیں گی، لیکن کیا آپ اپنی صلیب اٹھانے کے لیے تیار ہیں؟ اگر آپ کی زندگی میں کوئی ایسا موڑ آتا ہے جہاں آپ کو ایک ایسے انتخاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے –خُداوند یسوع یا اِس زندگی کی آسائش - تو آپ کس کا چناؤ کریں گے؟
مسیح سے وابستگی کا مطلب ہے کہ ہر روز اپنی صلیب اٹھانا، اپنی امیدوں، خوابوں، مال و دولت حتیٰ کہ اگر درکار ہو تواپنی زندگی کو مسیح کی خاطر دے دینا۔ جب آپ اپنی مرضی سے اپنی صلیب اٹھائیں گے تو صرف اُسی صورت میں آپ اُس کے شاگرد ہوسکتے ہیں(لوقا 14باب 27آ)۔ ملنے والا اجر اِیسا ہے کہ اُسکی یہ قیمت ادا کی جا سکتی ہے۔ خُداوند یسوع نے آپ ہی اپنی طرف سے دی جانے والی خود انکاری(اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے) کی اِس بلاہٹ پر عمل کر کے دکھا دیا، اور بتایا کہ ایسا کرنے والوں کو مسیح یسوع میں ابدی زندگی کا تحفہ ملے گا۔ " کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے اُسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا اُسے پائے گا" (متی 16باب 25آیت )۔
English
جب خُداوند یسوع نے کہا کہ 'اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے'( متی 16باب 24آیت؛ مرقس 8باب 34آیت؛ لوقا 9باب 23آیت)تو اُس کا اِس سے کیا مطلب تھا ؟