سوال
پیدایش1- 2 ابواب میں تخلیق کے دو مختلف بیانات کیوں ہیں؟
جواب
پیدایش 1باب 1 آیت بیان کرتی ہے کہ "خُدا نے اِبتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا"۔ اِس کے بعد پیدایش 2 باب 4 آیت میں ایسا لگتا ہے کہ تخلیق کے عمل کی ایک اور مختلف کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ تخلیق کے عمل کی دو مختلف تفصیلات کا یہ تصور اصل میں اِن دونوں حوالوں کی غلط تفسیر کا نتیجہ ہے جو حقیقت میں ایک ہی تخلیقی واقعے کو بیان کرتے ہیں۔یہ دونوں واقعات نہ تو آپس میں کوئی اختلاف رکھتے ہیں اور نہ تخلیق کی ترتیب کے لحاظ سے اِن میں کوئی تضاد پایا جاتا ہے ۔ پیدایش کی کتاب کا پہلا باب "تخلیق کے چھ دنوں"(اور آرام کے ساتویں دن)کو بیان کرتا ہے جبکہ دوسرا باب اِس تخلیقی ہفتے کے صرف ایک دن یعنی چھٹے دن کا احاطہ کرتا ہےلہذا اِن دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
پیدایش دوسرے باب میں مصنف چھٹے دن کی عارضی ترتیب کی طرف واپس آتا ہے جس دن خُدا نے انسان کو بنایا تھا ۔ پہلے باب میں مصنف چھٹے دن انسان کی تخلیق کو عملِ تخلیق کے اختتام یا نقطہ عروج کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پھر دوسرے باب میں مصنف انسان کی تخلیق کے بارے میں زیادہ تفصیل سے بات کرتا ہے۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پیدایش کی کتاب کے پہلے دو ابواب میں بنیادی طور پر دو اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ پہلا دعویٰ پودوں کی زندگی کے حوالے سے ہے۔ پیدایش 1باب 11 آیت بیان کرتی ہے کہ خُدا نے نباتات یا سبزہ جات کو تیسرے دن خلق کیا تھا ۔ پیدایش 2 باب 5 آیت بیان کرتی ہے کہ انسان کی تخلیق سے پہلے "زمین پر اب تک کھیت کا کوئی پودا نہ تھا اور نہ میدان کی کوئی سبزی اب تک اُگی تھی کیونکہ خُداوند خُدا نے زمین پر پانی نہیں برسایا تھا اور نہ زمین جوتنے کو کوئی انسان تھا"۔ پس یہاں پر اصل معاملہ کیا ہے؟ کیا خُدا نے انسان کی تخلیق سے پہلے تیسرے دن سبزہ جات کو خلق کیا تھا (پیدایش 1 باب) یا انسان کو بنانے کے بعد نباتات کو خلق کیا گیا تھا (پیدایش 2 باب)؟ دونوں حوالہ جات میں "نباتات" کے لئے دو مختلف عبرانی الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے ۔ پیدایش1باب 11آیت میں ایک ایسی اصطلا ح استعمال کی گئی ہے جو عام نبا تات کو پیش کرتی ہے۔ پیدایش 2باب 5آیت میں زیادہ خاص اصطلاح استعمال ہوئی ہے جو ایسی نباتات کو پیش کرتی ہے جس کے لیے زراعت/کاشتکاری کی ضرورت ہوتی ہے یعنی اُن کی دیکھ بھال کے لئے کوئی شخص یا باغبان درکار ہوتا ہے۔ لہذااِن حوالہ جات میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ پیدایش 1باب 11آیت کے مطابق خدا نے عام نباتات یا سبزہ جات کو تخلیق کیا ہے اور پیدایش 2باب 5آیت بیان کرتی ہے کہ خدا نے انسان کی تخلیق سے پہلے " قابلِ کاشت" نباتات کو نہیں اُگایا تھا۔
اختلاف سے متعلق دوسرے دعوے کا تعلق جانوروں کی زندگی سے ہے۔ پیدایش 2باب 24-25آیات بیان کرتی ہیں کہ خُدا نے جانوروں کو چھٹے دن انسان کی تخلیق سے پہلے خلق کیا تھا ۔ جبکہ بعض تراجم میں ایسا لگتا ہے کہ خُدا نے پیدایش 2باب 19آیت میں پہلے انسان کو اور پھر جانوروں کو پیدا کیا تھا ۔ تاہم پیدایش 2باب 19- 20 آیات کا مناسب اور درست ترجمہ بیان کرتا ہے کہ "خُداوند خُدا نے کُل دشتی جانور اور ہوا کے کُل پرندے مِٹّی سے بنائے اور اُن کو آدم کے پاس لایا کہ دیکھے کہ وہ اُن کے کیا نام رکھتا ہے اور آدم نے جس جانور کو جو کہا وہی اُس کا نام ٹھہرا۔ اور آدم نے کُل چوپایوں اور ہوا کے پرندوں اور کُل دشتی جانوروں کے نام رکھے پر آدم کے لئے کوئی مددگار اُس کی مانند نہ ملا"۔ متن یہ نہیں کہتا کہ خُدا نے پہلے انسان کو اور پھر جانوروں کو خلق کیا تھا اور اِس کے بعد خدا جانوروں کو آدم کے پاس لایا تھا ۔ بلکہ متن کہتا ہے"خُداوند خُدا نے کُل دشتی جانور اور ہوا کے پرندے مِٹّی سے (پہلے ہی)بنادئیے تھے "۔ اِس حوالے میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ چھٹے دن خُدا نے جانوروں کو اور پھر انسان کو بنایا اور اِس کے بعد وہ جانوروں کو انسان کے پاس لایا تاکہ وہ جانوروں کے نام رکھے۔
تخلیق کے عمل کی دونوں تفصیلات پر الگ الگ غور کرنے اور پھر اُن کو آپس میں ملانے سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خُدا پیدایش کی کتاب کے پہلے باب میں تخلیق کے سلسلے کو بیان کرتا ہے اور پھر دوسرے باب میں تخلیق کے سلسلے کی اہم ترین تفصیلات خاص طور پر چھٹے دن کی وضاحت کرتا ہے۔لہذا اِس حوالے میں بھی کوئی تضاد نہیں پایا جاتا ہے بلکہ یہ ایک عام ادبی طریقہ کار ہے جس میں کسی واقعے کو پہلے مختصر اور پھر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے ۔
English
پیدایش1- 2 ابواب میں تخلیق کے دو مختلف بیانات کیوں ہیں؟