سوال
جن دُعاؤں کا جواب نہیں ملتا اُن کے بارے میں مسیحیوں کو کیسا رَدعمل ظاہر کرنا چاہیے ؟
جواب
ایسے کتنے مسیحی ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی شخص کےلیے دُعا کی مگر اُن کی دُعا ؤں کا جواب نہیں آیا ؟ ایسے کتنے لوگوں ہیں جو دُعا کرتےرہے ہیں اور جنہوں نے شاید اس وجہ سے دُعا کرنا " ترک " کر دیا ہے کہ وہ یا تو اپنے کمزور ایمان کے باعث بے دل ہوجاتے ہیں یا پھر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہ جس بات کےلیے دُعا کررہے تھے وہ خد اکی مرضی نہیں ہے ؟بہرحال ہم جواب نہ ملنے والی دُعاؤں کے ساتھ جس طرح سے نمٹتے ہیں وہ نہ صرف ہمارےلیے فائدہ مند ہے بلکہ دوسروں کے لیے فائدہ مند بھی ہے ۔ جب ہم دُعا کرتے ہیں تو ہم اُس عظیم تر ذات کے ساتھ رابطے کے نہایت قیمتی اور خدا کی طرف سے عطا کردہ عمل میں مشغول ہوتے ہیں جس کے سامنے ہم اپنے تمام معاملات میں جواب دہ ہیں ۔ ہمیں حقیقتاً بہت بڑی قیمت یعنی خداوند یسوع مسیح کے خون سے خریدا گیا ہے اور اس لیے ہم خدا سے ہیں ۔
دُعا کا ہمارا استحقاق خدا کی طرف سے ہے اور اب بھی یہ ہمارا اُتنا ہی حق ہے جتنا یہ خُدا کے لوگوں کا اُس وقت تھا جب یہ استحقاق اسرائیل کو دیا گیا تھا (استثنا 4باب 7آیت)۔ تاہم جب ہم آسمانی خدا سے دعا یا گفتگو کرتے ہیں تو اُس دوران ایسے اوقات بھی آتے ہیں جب ایسامعلوم ہوتا ہے کہ خُدا اُن دُعاؤں کا جواب نہیں دے رہا ۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں اور کلام ِ مقدس اس بات کی تجویز پیش کرتا ہے کہ ہماری دُعا کیساتھ وہ عظیم ذات کیسے اور کیوں نمٹی ہے جو بہت مہربان اور محبت کرنے والی ہستی ہے، اُس ذات کو خدا باپ کے ساتھ ہمارا رابطہ کرنا پسند ہے کیونکہ وہ بذات خود ہمارا سردار کاہن ہے ( عبرانیوں 4باب 15آیت)۔
دُعا کا جواب نہ آنے کی ایک بنیادی وجہ وہ گناہ ہیں جن کا اعتراف نہیں کیا جاتا ہے ۔ خداکو ٹھٹھوں میں نہیں اُڑایا جا سکتا اور نہ اُسے فریب دیا جا سکتا کیونکہ جو اُوپر تخت پر بیٹھا ہے وہ ہمیں پوری طرح جانتا اور ہمارے ہر خیال سے واقف ہے ( 139زبور 1-4آیات)۔اگر ہم اُس کی راہ پر نہیں چل رہے یا ہم اپنے دلوں میں اپنے بھائی کےلیے عداوت رکھتے ہیں یا ہم غلط نیت ( جیسا کہ خود غرض خواہشات) کے تحت کچھ خُدا سے مانگتے ہیں تو ہم خدا سے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ ہماری دُعا کا جواب نہیں دے گا کیونکہ وہ ایسی دُعا ؤں کو نہیں سُنتا ( 2تواریخ 7باب 14آیت؛ 66زبور 18آیت؛ یعقوب 4باب 3آیت)۔ گناہ اُن ممکنہ برکات کی راہ میں رکاوٹ ہے جو ہم خدا کے رحم کے لامحدود " ذخیرہ " سے حاصل کریں گے ! درحقیقت کبھی کبھارا یسا وقت بھی ہوتا ہے جب ہماری دُعائیں خدا کے حضور نفرت انگیز ثابت ہوتی ہیں ؛ خصوصاً جب ہم بے اعتقادی کے باعث پور ی طرح خداوند میں نہیں ہوتے ( امثال 15باب 8آیت) یا پھر جب ہم ریا کاری کا مظاہر ہ کر رہے ہوتے ہیں ( مرقس 12باب 40آیت)۔
بعض اوقات ہماری دُعا کا جواب کیوں آتا دکھا ئی نہیں دیتا اِس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ خداوند ہمارے ایمان کو اِس طور سےمضبوط کر رہا ہوتا ہے کہ ہم اُس پر پہلے سے زیادہ انحصار اور توکل کر یں جس سے ہمارے اندر شکرگذاری ، محبت اور عاجزی کا گہرا احساس پیدا ہو۔ یکے بعد دیگرے یہ عمل ہمیں رُوحانی فائدہ پہنچانے کا سبب بنتا ہے کیونکہ خدا " فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے " ( یعقوب 4باب 6آیت؛ امثال 3باب34آیت)۔ مگر اُس کنعانی عورت کے بارے میں کوئی شخص کیا محسوس کرے گا جواُس وقت ہمارے خداوند سے مسلسل رحم کے لیے پکار رہی تھی جب وہ صوؔر اور صیؔدا کے علاقے میں آیا ہوا تھا ( متی 15باب 21-28آیات)! وہ ایسی انسان بالکل نہیں تھی جس کی طرف کوئی یہودی رّبی توجہ دیتا ۔ وہ غیر یہودی ہونے کے ساتھ ایک عورت بھی تھی اور انہی دونوں وجوہات کی بناء پر یہودیوں نے اُسے نظر انداز کیا تھا۔گوکہ یسوع اُس کی گزارشات کا جواب دیتانظر نہیں آتا مگر وہ اُس کی صورتِحال سے پوری طرح واقف ہے ۔ ممکن ہے کہ اُس نے اُس کے بیان کردہ مطالبات کا فوراً جواب نہ دیا ہو مگر اس کے باوجود یسوع نے اُس کی بات کو سُنا اور اُس کی التجا کو منظور کیا تھا ۔
خدا اکثر ہماری دُعاؤں کے بارے میں خاموش دکھائی دے سکتا ہے لیکن وہ کبھی بھی ہمیں خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجتا ہے۔ حتی ٰ کہ اگر دُعا کا جواب نہیں آتا ہے تو بھی ہمیں خداپر انحصار کرنا چاہیے کہ وہ اِس بات کو اپنے مقررہ وقت کےمطابق انجام دے ۔ اگرچہ دُعا کی مشق ہمارے لیے ایک نعمت ہے لیکن یہ ہمارے ایمان کے باعث ہی ہے کہ ہمیں دُعا میں مستقل مزاجی کی تحریک پاتے ہیں ۔ یہ ہمارا ایمان ہی ہے جس سے خدا خوش ہوتا ہے (عبرانیوں 11باب 6آیت)اور اگر ہماری دُعائیہ زندگی میں ایمان کی کمی ہے تو کیا یہ ہماری رُوحانی مستقل مزاجی کی بھی عکاسی نہیں کرتی ؟ خدا رحم کےلیے ہماری فریادوں کو سُنتا ہے اور اُس کی خاموشی ہمیں دُعا میں مستقل مزاجی کے جذبے سےلبریز رکھتی ہے ۔ وہ پسند کرتا ہے کہ ہم اُس کے ساتھ استدلال کریں ۔ آئیں ہم ان باتوں کے لیے بھوک محسوس کریں جو خدا کے دل کے موافق ہیں اور آئیں ہم اپنی نہیں بلکہ اُس کی راہوں پر چلیں ۔ اگر ہم بلاناغہ دُعا کرنے میں وفادار ہیں تو ہم خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایسا کرناکبھی بھی غلط نہیں ہوسکتا (1 تھسلنیکیوں 5باب 17-18آیات)۔
English
جن دُعاؤں کا جواب نہیں ملتا اُن کے بارے میں مسیحیوں کو کیسا رَدعمل ظاہر کرنا چاہیے ؟"