سوال
دُعا میں بے فائدہ طور پر باتوں کو دہرانے کا کیا مطلب ہے ؟
جواب
خداوند یسوع نے پہاڑی واعظ میں فرمایا ہے کہ "دُعا کرتے وقت غیر قَوموں کے لوگوں کی طرح بَک بَک نہ کرو کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بہت بولنے کے سبب سے ہماری سُنی جائے گی" ( متی 6باب 7آیت )۔اُردو ترجمے کی نسبت انگریزی ترجمے میں لفظ بَک بَک /دہرائی کے ساتھ ایک اور لفظ کا بھی استعمال ہوا ہے جس کا مطلب "بے معنی " یا "لا حاصل " ہے ؛ لہٰذا خُداوند یسوع ہمیں خبردار کر رہا ہے کہ دعاؤں میں بیکار فقروں کی دہرائی اُنہیں خدا کے حضور قابلِ قبول بننے میں مددگار ثابت نہیں ہوگی ۔ ہمارا آسمانی باپ الفاظ کی تعداد، خوبصورت بیانات یا منتروں سے کچھ تعلق نہیں رکھتا؛ وہ " باطن کی سچائی " چاہتا ہے ( 51زبور 6آیت )۔
بائبل کے مختلف تراجم متی 6باب 7آیت کا الگ الگ طرح سے ترجمہ کرتے ہیں جیسا کہ " بَک بَک نہ کرو" (کنگ جیمز ورژن )،"بے مقصد باتوں کو بار بار نہ دہراؤ"(نیو امریکن سٹینڈرڈ بائبل) ، "فضول فقروں کا انبارنہ لگاؤ" (انگلش سٹینڈرڈ ورژن) یا " مسلسل بڑبڑاتے نہ رہو" (نیو انٹرنیشنل ورژن )۔ جیسا کہ خداوند یسوع واضح کرتا ہے کہ بار بار دہرائے جانے والے الفاظ یا غیر حقیقی فقروں کا استعمال "غیر قوموں " یا " بُت پرست " لوگوں کی مشق ہے اور اِسے مسیحی دعا کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری دعائیں زیادہ سے زیادہ کوہِ کِرمل پر کی گئی ایلیاہ کی مختصر اور سادہ دعا کی طرح اور کم سے کم بعل کے پجاریوں کی طویل اور بار بار دُہرائی جانے والی دعاؤں جیسی ہونی چاہئیں (دیکھیں 1سلاطین 18باب 25-39آیات)۔
جب ہم دعا کر رہے ہوتے ہیں تو ہم خدا سے مخاطب ہوتے ہیں اور اُس کی عبادت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ دل سے بات چیت کرنے کی طرح ہے۔ مسیحیت کی کچھ شاخوں سمیت بہت سے مذاہب میں رٹی ہوئی دعائیں پائی جاتی ہیں جنہیں وہ بار بار دہرانے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ کچھ گرجا گھر تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ وہ گناہ سے پاک ہونے کے لیے اپنے اراکین سے کسی مخصوص دعا کو خاص تعداد میں پڑھنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ بت پرستی اور توہم پرستی کی طرف واپسی ہے؛ایسی بے حقیقی دعائیں محض بیکار"بَک بَک " ہیں جن کی کلیسیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ خداوند یسوع نے پہلے ہی ہمارے گناہوں کا ایک ہی بار ہمیشہ کے لیے کفارہ ادا کیا ہے (عبرانیوں 10باب 10آیت) اور ہم مسیح کی قربانی (عبرانیوں 4باب 15-16آیات) کے معیار کی بنیاد پر دلیری کے ساتھ فضل کے تخت کے پاس جا سکتے ہیں نہ کہ اپنے "بہت سے الفاظ" کی بنا ءپر ۔ (متی 6باب 7آیت )۔
اپنے الفاظ کے بارے میں سوچنے یا دل سے اُنکا اظہار ہونے دینے کی بجائے اپنی دعاؤں میں بے معنی دہرائی یعنی ایک ہی طرح کے الفاظ کو دہرانے کا شکار ہو جانا آسان ہے۔ ہمیں دعا میں اپنی توجہ خُدا پر مرکوز کرنی چاہیے اور اپنے دِلوں میں اُس کی عزت و تعظیم کرنی چاہیے۔ یسعیاہ 29باب 13آیت میں خدا فرماتا ہے کہ"یہ لوگ زُبان سے میری نزدِیکی چاہتے ہیں اور ہونٹوں سے میری تعظیم کرتے ہیں لیکن اِن کے دِل مجھ سے دُور ہیں۔"
الفاظ کی بیکاردُہرائی کے خلاف خُداوند یسوع کی تنبیہ کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی دعاؤں میں بے فائدہ یا بے معنی الفاظ اور با ر بار دہرائی سے گریز کرنا چاہیے۔ الفاظ کو دہرانے سے وقت تو پورا ہو جاتا ہے لیکن یہ ہماری خلوص نیت کو ثابت نہیں کرتا یا خدا کی طرف سے ہماری دُعا ؤں کے سُننے کے امکانات کو بہتر نہیں بناتا ۔ ہمیں اپنے بچّوں کو چھوٹی عمر میں ہی فطری اور عام انداز میں اُس ذات کے احترام کے ساتھ دعا کرنا سکھانا چاہیے جس سے وہ مخاطب ہو رہے ہیں۔
دُعا میں ثابت قدم رہنا بیکار دہرائی کرنے کی طرح نہیں ہے۔ ایک ہی بات کے لیے ایک سے زیادہ بار دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے (دیکھیں 2 کرنتھیوں 12باب 8آیت )۔ اصل میں خُداوند یسوع نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہمیں"ہر وقت دُعا کرتے رہنا اور ہمت نہ ہارنا چاہیے " ( لوقا 18باب 1 آیت )۔ لیکن یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہماری دعائیں کسی اور کے لکھے ہوئے الفاظ کے دہرائے جانے کی بجائے دل سے ،بے ساختہ اور خدا کی عزت و تعظیم کے لیے ہوتی ہیں۔
بائبل ہمیں ایمان کے ساتھ (یعقوب 1باب 6آیت )، خدا سے براہ راست مخاطب ہونے ( متی 6باب 9آیت ) اور خُداوند یسوع کے نام (یوحنا 14باب 13آیت ) سے دُعا کرنے کی تعلیم دیتی ہے ۔ ہمیں اپنی دعائیں احترام اور عاجزی کے ساتھ (لوقا 18باب 13آیت )، ثابت قدمی کے ساتھ (لوقا 18 باب 1آیت ) اور خُدا کی مرضی کے تابع (متی 6باب 10آیت ) رہ کر کر نی چاہییں ۔ بائبل ہمیں ایسی دعاؤں سے اجتناب کرنے کی تعلیم دیتی ہے جو ریاکارانہ ہیں، جو محض لوگوں کو سنانے کے لیے کی جاتی ہیں (متی 6باب 5آیت )یا بیکار دہرائی پر مبنی ہیں( متی 6باب 7آیت )۔
English
دُعا میں بے فائدہ طور پر باتوں کو دہرانے کا کیا مطلب ہے ؟