سوال
خدا کیا ہے ؟
جواب
اے ڈبلیو ٹوزر نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ "'خدا کیسا ہے ؟'" اگر اس سوال سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ 'خدا اپنے آپ میں کیسا ہے؟'تو اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اگر ہمارا مطلب ہے کہ 'خدا نے اپنے بارے میں وہ کونسی باتیں عیاں کی ہیں جن کا معقول عقل و دانش سے ادراک حاصل کیا جا سکتا ہےہے' تو مجھے یقین ہے کہ اِس کے لیے ایک جامع اور تسلی بخش جواب موجود ہے۔'"
ٹوزر اس لحاظ سے درست ہے کہ ہم یہ جان نہیں سکتے کہ خدا اپنی ذات کے اعتبار سے کیا ہے۔ ایوب کی کتاب اعلان کرتی ہےکہ " کیا تُو تلاش سے خُدا کو پا سکتا ہے؟ کیا تُو قادرِ مُطلق کا بھید کمال کے ساتھ دریافت کر سکتا ہے؟ وہ آسمان کی طرح اُونچا ہے۔ تُو کیا کر سکتا ہے؟ وہ پاتال سے گہرا ہے۔ تُو کیا جان سکتا ہے؟"(ایوب 11باب 7-8آیات)۔
بہرحال ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ خُدا نے اپنے کلام اور تخلیق میں اپنے بارے میں وہ کون کونسی باتیں عیاں کی ہیں ہے جنہیں" معقول عقل و دانش" سمجھ سکتی ہے۔
جب موسیٰ کو خدا کی طرف سے حکم دیا گیا کہ وہ مصری فرعون کے پاس جائے اور بنی اسرائیل کو غلامی سے آزاد کرنے کا تقاضا کرے تو موسیٰ نے خدا سے کہا کہ "مَیں بنی اِسرائیل کے پاس جا کر اُن کوکیا کہوں کہ تمہارے باپ دادا کے خُدا نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے اور وہ مجھے کہیں کہ اُس کا نام کیا ہے؟ تو مَیں اُن کو کیا بتاؤُں؟"(خروج 3باب 13آیت)۔
خُدا کی طرف سے موسیٰ کو دیا جانے والا جواب سادہ مگر بہت ہی معنی خیزتھا: " خُدا نے مُوسیٰ سے کہامَیں جو ہُوں سو مَیں ہُوں۔ سو تُو بنی اِسرائیل سے یُوں کہنا کہ مَیں جو ہُوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے"(خروج 3باب 14آیت)۔ 14آیت میں عبرانی متن لفظی طور پر بیان کرتا ہے کہ "مَیں وہی ہوں جو مَیں ہوں"۔
یہ نام اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ خدا کا ایک حقیقی وجود ہے یا جسے کچھ لوگ مکمل حقیقت قرار دیتے ہیں۔ مکمل حقیقت وہ چیز ہے جس کے نہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ایک اور انداز سے دیکھیں تو بہت سی چیزوں کا عارضی وجود ہو سکتا ہے (مثلاً انسان، جانور، پودے) لیکن صرف ایک ذات کاابدی وجود ہو سکتا ہے۔ دوسری چیزوں کا "وجود"عارضی ہے لیکن صرف خدا ہی ابدی اور مستقل وجود رکھتاہے۔
یہ حقیقت کہ صرف خدا ہی ابدی وجو د کا حامل ہےاس بارے میں کم از کم پانچ سچائیوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ خدا کیا ہے –خدا کا وجود کس طرح کا ہے ۔
پہلی سچائی: صرف خدا ہی واجب الوجود ہستی ہے اور باقی موجود تمام چیزوں کے وجود کا کوئی نہ کوئی پہلا سبب موجود ہے ۔ یوحنا 5باب 26آیت سادہ الفاظ میں بیان کرتی ہے کہ "باپ اپنے آپ میں زِندگی رکھتا ہے "۔ پولس سکھاتا ہے کہ وہ " نہ کسی چیز کا مُحتاج ہو کر آدمیوں کے ہاتھوں سے خِدمت لیتا ہے کیونکہ وہ تو خُود سب کو زِندگی اور سانس اور سب کچھ دیتا ہے۔" (اعمال 17باب 25آیت)۔
دوسری سچائی : خدا ایک ناگزیر ہستی ہے۔ ناگزیر ہستی وہ چیز ہے جس کی غیر موجود گی ناممکن ہے۔ صرف خدا ہی ایک ناگزیر ہستی ہے۔ باقی تمام چیزیں منحصروجود رکھتی ہیں یعنی ان کا وجود ختم ہوسکتا اور کسی نہ کسی اور چیز پر انحصار کرتا ہے۔ تاہم اگر خدا موجود نہیں تھا، تو پھر کسی بھی اور چیز کا وجود نہیں ہونا تھا ۔ صرف وہ اکیلا نا گزیر ہستی ہے جس کے وسیلہ سے باقی سب چیزیں فی الحال موجود ہیں - ایک ایسی حقیقت جسے ایوب کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ "اگر وہ اِنسان سے اپنا دِل لگائے۔ اگر وہ اپنی رُوح اور اپنے دَم کو واپس لے لے تو تمام بشر اِکٹھے فنا ہو جائیں گے اور اِنسان پِھر مٹّی میں مِل جائے گا۔" (ایوب 34باب 14-15آیات)۔
تیسری سچائی: خدا ایک ذات کی حامل ہستی ہے۔ اس سیاق و سباق میں لفظ ذات شخصیت کی وضاحت نہیں کرتا ہے (مثلاً، مضحکہ خیز، ملنسار، وغیرہ)؛ بلکہ اس کا مطلب "نیت کا حامل ہونا" ہے ۔خدا ایک بامقصد ہستی ہے جس کی اپنی ایک مرضی ہے،جو تخلیق کرتا ہے اور واقعات کو اس طرح سے ترتیب دیتا ہے جو اُس کی ذات کو زیب دیتی ہے ۔ یسعیاہ نبی نے لکھا ہے کہ "مَیں خُدا ہُوں اور کوئی دُوسرا نہیں۔ مَیں خُدا ہُوں اور مجھ سا کوئی نہیں۔ جو اِبتدا ہی سے انجام کی خبر دیتا ہُوں اور ایّامِ قدِیم سے وہ باتیں جو اب تک وقُوع میں نہیں آئیں بتاتا ہُوں اور کہتا ہُوں کہ میری مصلحت قائِم رہے گی اور مَیں اپنی مرضی بِالکُل پُوری کرُوں گا" (یسعیاہ 46باب 9-10آیات)۔
چوتھی سچائی : خُدا ایک ثالوث ذات ہے۔ یہ سچائی ایک بھید ہےمگر پھر بھی مکمل کتابِ مقدس اور زندگی عموماً اس حقیقت پر بات کرتے ہیں۔ بائبل واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ صرف ایک ہی خدا ہے:" سُن اَے اِسرائیلؔ! خُداوند ہمارا خُدا ایک ہی خُداوند ہے" (استثنا 6باب 4آیت)۔ لیکن بائبل یہ بھی اعلان کرتی ہے کہ خدا کی ذات میں کثرت پائی جاتی ہے۔ یسوع کے آسمان پر جانے سے پہلے اُس نے اپنے شاگردوں کو حکم دیاکہ :"پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوحُ القُدس کے نام سے بپتسمہ دو"(متی 28باب 19آیت) ۔ آیت میں مندرج"نام" پر غور کریں جو صیغہ واحد ہے ؛ یہ آیت "ناموں " کا ذکر نہیں کرتی جواگر استعمال کئے جاتے تو تین خداؤں کو ظاہر کرتے ۔یہاں پر اُن تینوں ہستیوں سے وابستہ ایک ہی نام ہے جو قادرِ مطلق خدا کی ذات میں شامل ہیں ۔
بائبل مقدس مختلف حوالہ جات میں واضح طور پر باپ کو خدا،یسوع کو خدا اور رُوح القدس کو خدا قرار دیتی ہے ۔ مثال کے طور پر اس حقیقت کو یوحنا کی انجیل کی ابتدائی آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ یسوع واجب الوجود ہے اور وہ ہر چیز کا پہلا سبب ہے : "سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہُوئیں اور جو کچھ پَیدا ہُوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پَیدا نہیں ہُوئی۔ اُس میں زِندگی تھی " ( یوحنا 1باب 3-4آیات)۔ بائبل یہ بھی فرماتی ہے کہ یسوع ایک ناگزیر ہستی ہے: " وہ سب چیزوں سے پہلے ہے اور اُسی میں سب چیزیں قائم رہتی ہیں"(کلسیوں 1باب 17آیت)۔
پانچویں سچائی : خدا ایک محبت کرنے والی ہستی ہے۔ جس طرح بہت سی چیزیں عارضی طور پر موجود ہوسکتی ہیں لیکن صرف ایک چیز کا ابدی وجود ہوسکتا ہےاُسی طرح انسان اور دیگر جاندار محبت کے جذبے سے سرشار ہو سکتے اور اُس کا تجربہ کرسکتے ہیں مگر صرف ایک چیز حقیقی محبت ہوسکتی ہے۔ 1یوحنا 4باب 8آیت وجودیات کے حوالے سے ایک سادہ سا بیان دیتی ہے کہ "خدا محبت ہے۔"
خدا کیا ہے؟ صرف خدا ہی ہے جو کہہ سکتا ہےکہ "مَیں وہی ہوں جو مَیں ہوں۔" خدا حقیقی ذات ، واجب الوجود اور ہر اُس چیز کا ماخذ ہے جو وجود رکھتی ہے۔ وہ واحد ناگزیر، بامقصد/شخصی ہستی ہےجو وحدت اور کثرت دونوں کی مالک ہے۔
خدا محبت ہے۔ وہ آپ کو دعوت دیتا ہے کہ آپ اُسے ڈھونڈیں اُس کی اُس محبت کو دریافت کریں جو وہ آپ کے لیے اپنے کلام اور اپنے بیٹے یسوع مسیح کی زندگی میں رکھتا ہے جو آپ کے گناہوں کی خاطر مواءاور جس نےآپ کے لیے راہ تیار کی کہ آپ ابدیت اُس کے ساتھ گزار سکیں۔
English
خدا کیا ہے ؟