settings icon
share icon
سوال

چونکہ خُدا معافی کو روکے رکھتا ہے تو کیا ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں؟

جواب


بائبل خُدا کی طرف سے بنی نوع انسان کی معافی اور انسانوں کی طرف سے ایک دوسرے کے لیے معافی کے بارے میں بہت کچھ کہتی ہے۔ لیکن یہ معافی کے دو الگ الگ اور غیر متعلقہ معاملات نہیں ہیں، بلکہ اِن کا باہمی تعلق بہت زیادہ اہم ہے۔ خُدا کے ساتھ قربت اور روز مرّہ کی سطح پر ہماری تقدیس کا انحصار دوسروں کو معاف کرنے پر ہے (متی 6باب12 آیت)، اور ہماری دوسروں کے لیے معافی کا نمونہ خُدا کی طرف سے ہمارے معاف کئے جانے کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے (افسیوں 4باب32 آیت؛ کلسیوں 3باب13 آیت)۔ چنانچہ یہ ایک اہم سوال ہے۔

اگر ہم دوسروں کو اُس طرح سے معاف کرنا چاہتے ہیں جس سے خُدا کی طرف سے ملنے والی معافی کی عکاسی ہوتی ہو تو پھر ہمیں اپنے لیے خُدا کی اُس خاص معافی کو سمجھنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ حالیہ چند دہائیوں کے اندر معافی کا لفظ گناہ سے آزادی کی بجائے "نفسیاتی آزادی" کا مفہوم اختیار کر چکا ہے اور اِس سے پورے تصور کے بارے میں کچھ الجھن پیدا ہوتی ہے کہ معاف کرنے کا کیا مطلب ہے۔

یہ سچ ہے کہ خُدا ہمیں جو معافی عطا کرتا ہے وہ ہماری طرف سے گناہ کے اعتراف اور توبہ کے ساتھ مشروط ہے۔ اعتراف کرنے میں ہم گناہ کے بارے میں خُدا کے تصور کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں، اور توبہ کے لیے غلط رویے یا عمل سے متعلق ذہن کی تبدیلی اور طرزِ عمل میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہےجس میں گناہ کو ترک کرنے کے لیے حقیقی رضا مندی کا اظہار ہوتا ہے۔ گناہ اُس وقت تک معاف نہیں کیا جاتا جب تک اُس کا اعتراف کر کے اُس سے توبہ نہ کی جائے(دیکھیں 1 یوحنا 9باب1 آیت؛ اعمال 20 باب 21 آیت)۔ اگرچہ معافی کے لیے یہ ایک مشکل شرط لگ سکتی ہے، لیکن یہ ایک بہت ہی بڑی نعمت اور وعدہ بھی ہے۔ گناہ کا اقرار خود مذمتی کا عمل نہیں بلکہ مسیح کے ذریعے سے معافی میں گناہ کے علاج کے لیے خُدا کی دستگیری کا مطالبہ کرتا ہے۔

خُدا کی طرف سے ہم سے گناہ کا اقرار اور توبہ کرنے کے تقاضے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خُدا ہمیں معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اُس نے ہمیں معافی کی سہولت عطا کرنے کے لیے اپنی طرف سے سب کچھ کیا ہے۔ اُس کا دل معاف کرنے کے لیے راضی ہے، وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی ہلاک ہو (2 پطرس 3باب9 آیت)، اِس لیے وہ ہمیں معافی عطا کرنے کے لیے اُس انتہائی حد تک چلا گیا ہے جس کا تصور کیا جا سکے۔ صلیب پر مسیح یسوع کی قربانی کی وجہ سے خُدا ہمیں بالکل مفت معافی پیش کرتا ہے۔

کلام مُقدس کہتا ہے کہ ہم دوسروں کو ویسے معاف کریں جیسے ہمیں معاف کیا گیا ہے (افسیوں 4باب32 آیت)، اور ایک دوسرے کو اُس طرح سے محبت کریں جیسے ہمیں محبت کی گئی ہے (یوحنا 13باب 34 آیت)۔ ہمیں ہمیشہ ہی کسی بھی ایسے شخص کو معاف کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے جو اپنے گناہ کا اعتراف کرے اور اپنے گناہ سے توبہ کرنے کے لیے تیار ہو (متی 6باب14-15 آیات؛ 18باب23-35 آیات؛ افسیوں 4باب31-32 آیات؛ کلسیوں 3باب13 آیت)۔ یہ نہ صرف ہماری ذمہ داری ہے بلکہ یہ ہماری خوشی بھی ہونی چاہیے۔ اگر ہم واقعی اپنے لیے خُدا سے ملنے والی معافی کے لیے شکر گزار ہیں تو ہمیں توبہ کرنے والے کسی بھی مجرم کو معاف کر دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے، چاہے وہ ہمیں بار بار پریشان کرے اور بار بار توبہ کرے۔ آخر کو ہم بھی بار بار گناہ کرتے ہیں اور ہم شکر گزار ہیں کہ جب ہم خُدا کے پاس سچے دِل کے ساتھ توبہ کرتے ہوئے آتے ہیں تو خُدا ہمیں معاف کر دیتا ہے۔

یہ بات ہمیں اِس سوال کی طرف لے کر آتی ہے کہ کیا ہم ایسے شخص کو بھی معاف کر دیں جو اپنے گناہوں کا اعتراف اور توبہ نہیں کرتا؟اِس کا درست جواب دینے کے لیے معافی کی اصطلاح کی کچھ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ معافی کیا نہیں ہے:

معافی برداشت کرنے کے مترادف نہیں ہے۔ برداشت کرنا دراصل صبر کے ساتھ اشتعال انگیزی کو برداشت کرنا، معمولی بات کو نظر انداز کرنا یا مایوسی کے سامنے خود پر قابو رکھنا ہے۔ برداشت ہمیں کسی کے گناہگار عمل یا رویے کو محبت، دانشمندی اور سمجھداری کے ساتھ تولنے اور جواب نہ دینے کا انتخاب کرنے کا سبب بنتی ہے۔ کلامِ مُقدس اِس خوبی کے لیے مختلف قسم کے الفاظ استعمال کرتا ہے: صبر، برداشت وغیرہ (دیکھئے امثال 12باب16 آیت؛ 19 باب 11 آیت؛ 1 پطرس 4باب8 آیت)۔

معافی بھول جانے کے مترادف بھی نہیں ہے۔ خُدا ہمارے گناہوں کے تعلق سے بھولنے کی بیماری میں نہیں مبتلا۔ وہ بہت واضح طور پر یاد رکھتا ہے، اور وہ اُنہیں ہماری مذمت کرنے کے لیے یاد نہیں رکھتا (رومیوں 8باب1 آیت)۔ داؤد بادشاہ کی حرامکاری اور ابرہام کی طرف سے بولے جانے والے جھوٹ –ہر ایک دور کے لیے کلامِ مُقدس کا حصہ ہیں۔ خُدا یقینی طو ر پر اُنہیں بھول نہیں گیا تھا۔

معافی تمام نتائج کا خاتمہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جب ہمیں مسیح نے معاف کر دیا ہے، لیکن ہم اب بھی اپنے گناہ کے فطری نتائج بھگت سکتے ہیں (امثال 6باب27 آیت)یا آسمانی باپ کو محبت کرنے کے باوجود تنبیہ کا سامنا کر سکتے ہیں (عبرانیوں 12باب5-6 آیات)۔

معافی محض ایک احساس نہیں ہے۔ یہ جرم کو معاف کرنے کا عزم ہے۔ احساسات معاف کرنے کے عمل کا ساتھ دے بھی سکتےہیں اور نہیں بھی دے سکتے۔ اگر ہم اپنے خلاف گناہ کرنے والے شخص کو معاف نہیں بھی کرتے تو اُس کے خلاف تلخی کے احساسات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔

معافی کسی انفرادی دِل کا نجی اور تنہا عمل نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں معافی کے عمل میں کم از کم دو افراد شامل ہوتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پر اعتراف اور توبہ عمل میں آتی ہے۔ معافی کا تعلق محض اِس بات کے ساتھ نہیں ہے کہ جس شخص کے خلاف گناہ کیا گیا ہو اُس کے دِل کے اندر کیا ہو رہا ہے، بلکہ یہ دو افراد کے باہمی عمل پر مبنی ہوتی ہے۔

معافی خود غرضی نہیں ہے اور نہ ہی یہ ذاتی مفادات سے متاثر ہوتی ہے۔ ہم اپنی خاطر یا اپنے آپ کو تناؤ سے نجات دلانے کے لیے معاف کرنے کی کوشش نہیں کر سکتے۔ ہم خُدا سے محبت، اپنے پڑوسی سے محبت اور خود کو ملنے والی معافی کے لیے شکرگزاری کی بدولت معاف کر سکتے ہیں۔

معافی اعتماد کود کار بحالی نہیں ہے۔ یہ سوچنا غلط ہے کہ آج کسی ظلم کرنے والے یا بدتمیز شریکِ حیات کو معاف کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے درمیان ہونے والی علیحدگی کل ختم ہو جانی چاہیے۔ بائبل ہمیں ایسے لوگوں پر عدم اعتماد کرنے کی بہت سارے وجوہات دیتی ہے جنہوں نے ہماری زندگی میں خود کو ناقابلِ بھروسہ ثابت کیا ہوتا ہے (دیکھیں لوقا 16باب10-12 آیات)۔ اعتماد کی تعمیرِ نو کا آغاز صلح کےایسے عمل کے بعد ہی ہو سکتا ہے جس میں حقیقی معافی شامل ہو – یعنی جس کے اندر حقیقت میں اعتراف اور توبہ شامل ہو۔

اِس کے علاوہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پیش کردہ اور دستیاب معافی ، دی گئی، حاصل کی گئی یا قبول کی گئی معافی کے مترادف نہیں ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر معافی کا لفظ اکثر خُدا کے کلام کے اندر اِس کے استعمال سے مختلف انداز میں استعمال ہوتا ہے۔ ہم معاف کرنے کے رویے کو یعنی معاف کرنے پر آمادگی کو معافی کہتے ہیں، بالکل اُسی طرح جیسے حقیقی معنوں میں لین دین والا معاملہ ہوتا ہے، یعنی جب کوئی شخص معاف کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے تو وہ کسی بھی بات کا تقاضا کئے بغیر معاف کر دیتا ہے۔ لیکن معافی کی یہ وسیع تعریف اعتراف اور توبہ کے عمل کو مختصر کر دیتی ہے۔ پیش کی جانے والی معافی اور موصول کی جانے والی معافی بالکل مختلف ہیں۔ جب ہم اِن دونوں کے لیے ایک ہی لفظ استعمال کرتے ہیں تو ایسا کرنا ہمارے لیے کچھ زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوتا۔

اگر یہ سب معافی نہیں ہے تو پھر معافی کیا ہے؟معافی کی ایک بہت ہی بہترین تعریف کرِس براونز کی کتاب Unpacking Forgiveness کے اندر پائی جاتی ہے۔

خُدا کی طرف سے ملنے والی معافی: ایک سچے خُدا کی طرف سے توبہ کرنے والوں اور ایمان لانے والوں کو مہربانی سے معاف کرنے کا عہد ہے تاکہ وہ اُس سے صلح کر لیں؛ حالانکہ اِس سے کسی شخص کی زندگی کے اندر اُس کے اعمال کے تمام نتائج ختم نہیں ہوتے۔

عمومی انسانی معافی: ناراض افراد کی طرف سے یہ عہد کہ وہ توبہ کرنے والوں کو اخلاقی ذمہ داری کی بناء پر معاف کر دیں گے اوراُس شخص سے صلح کر لیں، حالانکہ ضروری نہیں کہ ناراضگی کے عمل کے تمام نتائج ختم ہو جائیں۔

بائبلی لحاظ سے مکمل معافی محض ایک ایسی چیز نہیں ہے جو ناراض شخص دوسرے شخص کو پیش کرتا ہے؛ اِس کے لیے ضروری ہے کہ قصور وار اُسے قبول کرے، تعلقات میں مفاہمت اور صلح لائے ۔ 1 یوحنا 1باب9 آیت ظاہر کرتی ہے کہ معافی کا عمل بنیادی طورپر گناہگار کو آزاد کرنا ہے؛ معافی رَد کئے جانے کو ختم کرتی ہے اِس طرح تعلقات میں مصالحت ہوتی ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ہمیں دوسروں کو معاف کرنے کے لیے آمادہ ہونا چاہیے۔ اگر ہم معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تو ہم دوسروں کو اُس چیز سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہیں جس سے خُدا نے ہمیں نوازا ہے۔ جدید پاپ نفسیات نے غلط طور پر اِس بات کی تعلیم دی ہے کہ "معافی" یک طرفہ ہے، مفاہمت غیر ضروری ہے اور اِس یک طرفہ معافی کا مقصد ناراض شخص کو تلخی کے احساسات سے آزاد کرنا ہے۔

اگرچہ ہمیں اپنے دِلوں میں تلخی نہیں رکھنی چاہیے (عبرانیوں 12باب15 آیت)، یا بدی کا جواب بدی سے نہیں دینا چاہیے (1 پطرس 3باب9 آیت)، ہمیں اِس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہم خُدا کی طرف سے عطا کردہ رہنمائی پر عمل کریں اور توبہ نہ کرنے والے کو معاف نہ کریں۔ مختصر یہ کہ ہمیں ایسے لوگوں سے معافی روک لینی چاہیے جو اعتراف اور توبہ نہیں کرتے ؛ لیکن اِس کے ساتھ ہی ہمیں معافی کی پیشکش کرنی چاہیے اور معاف کرنے کے لیے تیاری کے رویے کو اپنانا چاہیے۔

ستفنس کو جب سنگسار کیا جا رہا تھا تو وہ اُس حالت میں معافی کے اصول کی تصویر کشی کرتا ہے۔ صلیب سے خُداوند یسوع کے الفاظ کی بازگشت ستفنس کی دُعا میں ملتی ہے جب وہ کہتا ہے کہ " اَے خُداوند!یہ گُناہ اِن کے ذِمّہ نہ لگا " (اعمال 7باب60 آیت؛ بالموازنہ لوقا 23باب34 آیت)۔ یہ الفاظ اُس کی طرف سے معاف کرنے کے لیے یقینی آمادگی کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن یہ معافی کے عمل کے مکمل ہونے کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔ ستفنس نے صرف یہ دُعا کی کہ خُدا اُس کے قاتلوں کو معاف کر دے۔ اُس نے اپنے دِل میں کسی طرح کی کوئی تلخی نہیں رکھی۔ اور اُس کی خواہش تھی کہ جب بھی اور اگر کبھی اُس کے قاتل توبہ کریں تو اُنہیں معاف کر دیا جائے –اپنے دُشمنوں سے محبت کرنے اور اپنے ستانے والوں کے لیے دُعا کرنے کی یہ کیسی شاندار مثال ہے (متی 5باب44 آیت)۔

بائبل ہمیں حکم دیتی ہے کہ دشمن کو بھی بھوکا دیکھ کر اُس کو کھانا کھلائیں (رومیوں 12باب20 آیت)۔ یہاں پرا یسا کچھ بھی نہیں کہا گیا کہ ہم خودبخود ہی اپنے دشمنوں کو معاف کر دیں (یا اُن پر بھروسہ کرنا شروع کر دیں)؛ بلکہ ہمیں اُن سے محبت کرنی ہے اور اُن کی بھلائی کے لیے کام کرنا ہے۔

اگر اعتراف اور توبہ کی شرطوں کے بغیر قبل از وقت "معافی" دے دی جاتی ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ دونوں فریقین نے کھل کر سچائی کا سامنا نہیں کیا۔ اگر ایک مجرم اپنے گناہ کو تسلیم نہیں کرتا تو وہ واقعی سمجھ نہیں پاتا کہ معاف کئے جانے کا کیا مطلب ہے۔ مزید برآں اعتراف اور توبہ کو نظر انداز کرنے سے مجرم کو گناہ کی اہمیت کو سمجھنے میں مدد نہیں ملتی اور یہ چیز انصاف کے احساس کو روکتی ہےجس کی وجہ سے ناراض شخص تلخی کے خلاف مزید جنگ کرتا ہے۔

خُدا پرستانہ معافی کے لیے کچھ اہم رہنما اصول:

• بدی کی حقیقت کو تسلیم کریں (رومیوں 12باب9 آیت)۔

• انتقام لینے کے عمل کو خُدا پر چھوڑ دیں (19 آیت)

• تلخی، انتقام، بغض یا جوابی کاروائی کرنے کی نیت کو دِل میں جگہ نہ دیں۔

• جس گھڑی آپ کو دوسرے کے قصور کا علم ہو آپ معاف کرنے کے لیےدِل کو تیار رکھیں۔

• بُرائی پر اچھائی کے ذریعے غالب آنے کے لیے خُدا پر بھروسہ رکھیں، حتیٰ کہ اپنے دشمن سے محبت کا اظہار کرنے اور اُس کو کھانا کھلانے تک کی صلاحیت رکھیں (20-21 آیات)۔

• یا درکھیں کہ خُدا نے حکمران حکام کو قائم کیا ہے اور خُدا کی طرف سے اُنہیں دئیے گئے کردار کا حصہ "خُدا کا ایسا خادم ہونا ہے اور غضب کے موافق بدکار کو سزا" دینا ہے (رومیوں 13باب4 آیت )۔ آپ کے لیے بذاتِ خود کسی سے بدلہ نہ لینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خُدا نے حکومت کو انصاف فراہم کرنے کے لیے اختیار دیا ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

چونکہ خُدا معافی کو روکے رکھتا ہے تو کیا ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries