سوال
کیا ایک بیوی کا اپنے شوہر کے تابع ہونا ضروری ہے؟
جواب
شادی کے تعلق سے تابعداری ایک بہت اہم معاملہ ہے۔ اِس حوالے سے واضح بائبلی حکم کچھ یوں ہے "اَے بیویو! اپنے شوہروں کی ایسی تابع رہو جیسے خُداوند کی کیونکہ شوہر بیوی کا سر ہے جیسے کہ مسیح کلیسیا کا سر ہے اور وہ خود بدن کا بچانے والا ہے۔ لیکن جیسے کلیسیا مسیح کے تابع ہے ویسے ہی بیویاں بھی ہر بات میں اپنے شوہروں کے تابع ہوں"(افسیوں 5باب22-24 آیات)۔
حتیٰ کہ گناہ کے اِس دُنیا میں داخل ہونے سے بھی پہلے کلامِ مُقدس کی روشنی میں خاوند کے اپنے خاندان کا سربراہ ہونے کا اصول دیکھا جا سکتا ہے (1 تیمتھیس 2باب13 آیت)۔ آدم کو خُدا کی طرف سے پہلے تخلیق کیا گیا اور پھر حوا کو آدم کی "مددگار" کے طور پر تخلیق کیا گیا تھا (پیدایش 2باب18- 20 آیات)۔ خُدا نے اپنے کلام کے اندر مختلف طرح کے اختیارات کے بارے میں اصول وضع کئے ہیں: گورنمنٹ کی طرف سے معاشرے میں انصاف کی فراہمی اور لوگوں کے تحفظ کو ممکن بنانا؛ پاسبانوں کی طرف سے خُدا کے لوگوں کی رہنمائی کرنا اور اُنہیں رُوحانی خوراک مہیا کرنا؛ خاوندوں کی طرف سے اپنی بیویوں سے محبت کرنا اور اُن کی دیکھ بھال اور پرورش کرنا اور والدوں کی طرف سے اپنے بچّوں کی تربیت کرنا اور اُن کو ہدایت و تاکید کرنا۔ اِن سب کے سب معاملات میں تابعداری کی ضرورت ہے۔ عام شہروں کی طرف سے گورنمنٹ کی تابعداری، بھیڑوں کی طرف سے چرواہوں کی تابعداری، بیویوں کی طرف سے شوہروں کی تابعداری، بچّوں کی طرف سے اپنے والدوں کی تابعداری۔
جس یونانی لفظ کا ترجمہ "تابعداری" کیا گیا ہے وہ hupotasso ہے اور اِس کے معنی تابعداری کا مسلسل یا جاری عمل ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ خُدا، گورنمنٹ، پاسبان ، شوہر یا والد کی تابعداری صرف ایک بار کیا جانے والا عمل نہیں ہے۔ یہ ایک جاری رہنے والا رویہ ہے جو بعد میں ہمارے اخلاق یا دوسروں کے ساتھ سلوک کا حتمی حصہ بن جاتا ہے۔
سب سے پہلے تو ہماری ذمہ اری ہے کہ ہم خود کو خُدا کے تابع کر دیں کیونکہ یہ وہ واحد طریقہ ہے جس کی بدولت ہم سچے طور پر خُدا کی تابعداری کر سکتے ہیں (یعقوب 1باب 21 آیت؛ 4باب7 آیت)، اور ہر ایک مسیحی کو بڑی حلیمی اورمسیح کے خوف کے ساتھ ایک دوسرے کے تابع رہنا چاہیے (افسیوں 5باب21 آیت)۔ خاندانی طور پر تابعداری کے حوالے سے 1 کرنتھیوں 11باب 2- 3آیات بیان کرتی ہیں کہ ہر مرد کو مسیح کے تابع ہونا چاہیے (جیسے مسیح خُدا باپ کے تابع ہے ) اور بیوی کو خاوند کے تابع ہونا چاہیے۔
ہماری آجکل کی دُنیا میں شادی شُدہ زندگی میں میاں بیوی کے کردار کے حوالے سے کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ بہت سارے لوگوں کے نزدیک اگرچہ میاں اور بیوی کے بائبلی کردار کو بہت اچھے طریقے سے سمجھا جاتا ہے لیکن پھر بھی بہت سارے لوگ عورت کی "آزادی " کے نام پر بائبلی تعلیم اور اُس میں بیان کردہ کردار کو رد کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں خاندانی اکائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ قطعی طور پر حیرت کی بات نہیں ے کہ یہ دُنیا خُدا کے نمونے کو رد کرتی ہے لیکن خُدا کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ خُدا کی طرف سے پیش کردہ خاندانی نمونے کو ہی اپنائیں اور اُس کے نام کے جلال کے لیے اُس میں مسرور رہیں۔
تابع ہونا کوئی بُرا لفظ نہیں ہے۔ تابعداری کے معنی کسی طور پر بھی کسی کے کمتر یا کم اہمیت کے حامل ہونے کے نہیں ہیں۔ خُداوند یسوع مسیح نے مسلسل طور پر اپنے آپ کو خُدا باپ کی پاک مرضی کے تابع کئے رکھا (لوقا 22باب 42 آیت؛ یوحنا 5باب 30 آیت)، لیکن ایسا کرنے سے اُس کی اپنی ذات میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہوئی تھی۔
بیوی کے اپنے خاوند کے تابع ہونے کے بارے میں دُنیا کی طرف سے جو غلط ترجمانی کی جاتی ہے یا غلط معلومات دی جاتی ہیں اُس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بڑی احتیاط کے ساتھ افسیوں 5باب22-24 باب 1 آیت پر غور کرنے کی ضرورت ہے:
أ. ایک بیوی کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ ایک مرد (صرف اپنے خاوند) کی تابعداری کرے نہ کہ دُنیا کے ہر ایک مرد کی۔ تابعداری کے اِس اصول کا اطلاق عورت پر سارے معاشرے میں نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ معاشرے میں عورت کے مقام پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
ب. ایک عورت اپنی مرضی سے خُداوند یسوع مسیح کی تابعداری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے شوہر کی تابعداری کرتی ہے۔ اُس کے لیے اپنے شوہر کی تابعداری کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے خُداوند یسوع مسیح سے پیار کرتی ہے۔
ج. عورت کے اپنے شوہر کے تابع ہونے کی مثال کلیسیا کے مسیح کے تابع ہونے جیسی ہے۔
د. اِس حوالے میں عورت کی قابلیت، اُس کی خصوصیات یا اُس کی اہمیت کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا، اِس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اُس کے اپنے شوہر کے تابع ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ مرد سے کسی طور پر کمتر ہے یا وہ کسی لحاظ سے کم اہم ہے۔ مزید یہ بات بھی دیکھنے والی ہے کہ یہاں پر مرد کی کچھ خاص قابلیت کا بھی ذکر نہیں کیا گیا جس کی بنیاد پر عورت کو حکم دیا جاتا کہ چونکہ مرد میں فلاں فلاں خصوصیات ہیں اِس لیے وہ اُس کے تابع ہو، بلکہ یہاں پر لکھا ہے کہ" ہر بات میں"۔ پس یہ ضروری نہیں ہے کہ کوئی شوہر اپنی بیوی کے سامنے کسی خاص قابلیت یا پھر ذہانت کے امتحان میں سے گزرے تو ہی اُسکی بیوی اُس کی تابع ہوگی۔ بہت ساری صورتوں میں یہ بات سچ ہو سکتی ہے کہ وہ کئی ایک معاملات میں اپنے خاوند سے زیادہ بہتر ہنر مند یا تعلیم یافتہ ہو لیکن وہ اپنے شوہر کی رہنمائی میں چلنے کے لیے خُداوند کی ہدایت پر عمل کرتی ہے۔ ایسا کرنے کی صورت میں ایک خُدا پرست بیوی اپنے بے ایمان شوہر کو بھی منہ سے کوئی لفظ کہے بغیرصرف اپنے پاکیزہ چال چلن اور خوف سے خُداوند کی طرف کھینچ لے گی (1 پطرس 3باب1 آیت)۔
پیار کرنے والی قیادت کے سامنے تابعداری ایک فطری ردِ عمل ہونا چاہیے جب ایک شوہر اپنی بیوی سے ایسے پیار کرتا ہے جیسے مسیح کلیسیا سے پیار کرتا ہے (افسیوں 5باب25-33 آیات)، تو پھر ایک بیوی کی طرف سے اپنے محبت کرنے والے شوہر کے لیے تابعداری ایک فطری ردعمل ہوتا ہے۔ لیکن شوہر کی محبت کے نہ ہونے یا کم ہونے کی صورت میں بھی عورت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ایسے ہی تابع رہے جیسے کہ خُداوند کی (آیت نمبر 22)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ بیوی کی خُدا کے حضور تابعداری اور خُدا کی پاک مرضی اور منصوبے کو قبول کرنے کے نتیجے کے طور پر وہ اپنے شوہر کے تابع رہے گی۔ جب کلام یہ کہتا ہے کہ "جیسے خُداوند کی " تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ موازنہ عورت کو یہ بات یاد دلاتا ہے کہ اُس کے شوہر سے بھی برتر ایک اختیار موجود ہے جس کے سامنے وہ جوابدہ ہے۔ پس اِس سے یہ بات بھی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے خاوند کی تابعداری کرتے ہوئے معاشرتی و سرکاری قانون کی اور خُدا کی نافرمانی نہیں کر سکتی۔ وہ اپنے شوہر کی صرف اُنہی باتوں میں تابعدار ہونی چاہیے جو قانون کے مطابق ہیں اور خُدا کے نام کو جلال دیتی ہیں۔ اگر کوئی تابعداری کے اِس اصول کو دوسرے اصولوں کو توڑنے اور اُن کا غلط استعمال کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے تو اِس طرح سے وہ کلام کو مروڑتا اور توڑتا ہے اور بدی کو بڑھاوہ دیتا ہے۔
افسیوں 5 باب میں بیوی کو اپنے خاوند کی تابعداری کا جو حکم ملا ہے وہ اِس بات کی قطعی طور پر اجازت نہیں دیتا کہ اِس حکم کی بناء پر شوہر خود غرض اور اپنی بیوی پر جبر کرنے والا بن جائے۔ اُسے اپنی بیوی سے محبت کرنے کا حکم دیا گیا ہے (آیت نمبر 25)، اور وہ خُدا کے اِس حکم کو ماننے کے حوالے سے اپنے خُدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ خاوند کو اپنے اختیار کو بہت زیادہ عقلمندی ، محبت اور خُدا کے خوف کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے جس کے حضور میں وہ جوابدہ ہے۔
جب ایک بیوی کو شوہر کی طرف سے ایسے پیار کیا جاتا ہے جیسے مسیح کلیسیا سے پیار کرتا ہے تو اُس صورت میں اُس کی طرف سے اپنے شوہر کے تابع ہونا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ افسیوں 5باب24 آیت بیان کرتی ہے کہ "لیکن جیسے کلیسیا مسیح کے تابع ہے ویسے ہی بیویاں بھی ہر بات میں اپنے شوہروں کے تابع ہوں۔" ایک شادی میں تابعداری کا مطلب بیوی کی طرف سے اپنے شوہر کو عزت و احترام دینا ہے (دیکھئے افسیوں 5باب33 آیت) اور ایسا کرتے ہوئے وہ اُس چیز کی تکمیل کرتی ہے جس کی اُس کے شوہر میں کمی ہے۔ یہ خُدا کا اپنا پُر حکمت منصوبہ ہے جو ایک خاندان کے چلنے کے لیے اُس نے خود دیا ہے۔
بائبلی مفسر میتھیو ہنری نے لکھا ہے کہ، "خُدا نے عورت کو مرد کے پہلو میں سے تخلیق کیا تھا۔ وہ مرد کے سر میں سے کچھ لیکر تخلیق نہیں کی گئی تھی کہ اپنے شوہر پر حکمرانی کرے، نہ ہی اُسے مرد کے پیروں میں سے کچھ لیکر تخلیق کیا گیا تھاتاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اُس کو اپنے پیرو میں روندھتا پھرے، بلکہ وہ اُس کے پہلو سے کچھ لیکر بنائی گئی تھی تاکہ وہ مرد کے برابر ہو، اُسکے بازو کے پاس سے تاکہ وہ مرد کی حفاظت میں رہے، اُس کے دل کے پاس سے تاکہ مرد اُسے محبت کرے۔"میاں بیوی کو یہاں پر جو حکم ملا ہے اُس کا سیاق و سباق افسیوں 5باب19- 33 آیات ہیں جہاں پر رُوح سے معمور ہونے کی بات کی گئی ہے۔ رُوح سے معمور ایماندار پرستش کرتے ہیں (5باب 19 آیت)، وہ شکر گزاری کرتے ہیں (5باب20 آیت)، اور وہ تابعداری کرتے ہیں (5باب 21 آیت)۔ پولس رسول رُوح سے معمور زندگی کے اِس تصور کو لیتا اورپھر 22-24 آیات کے اندر بیویوں کےاُنکی شادی شُدہ زندگی میں کردار پراِسکا اطلاق کرتا ہے۔ ایک بیوی کو اپنے شوہر کے تابع ہونا چاہیے، اِس لیے نہیں کہ عورتیں کسی طور پر مردوں سے کمتر ہیں (بائبل یہ بات کبھی بھی کہیں پر نہیں سکھاتی)، بلکہ اِس لیے کہ خُدا نے شادی شُدہ زندگی کے لیے یہ اصول خود وضع کیا ہے۔
English
کیا ایک بیوی کا اپنے شوہر کے تابع ہونا ضروری ہے؟