سوال
مَیں یہ کیسے جان سکتا ہوں کہ خُدا کی درست طور پر پرستش کیسے کرنی ہے؟
جواب
عبادت یا پرستش کوکسی معبود ، بت یا کسی شخص کو "بے لوث" انداز میں عزت دینے اور اس سے محبت کرنے کے عمل کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ اُس معبود ، شخص یا مادی چیز کی تعریف ، شکرگذار ی اور تعظیم کے لیے عبادت/ پرستش کے عمل میں عبادت گزار یا پرستار کی ذات کا ہر پہلو شامل ہوتا ہے۔ یہ کوئی آدھے دل کیساتھ سرانجام دیا گیا معاملہ نہیں ہے اور الٰہی مقصد کے تعلق سے عبادت کیا ہے اور کیا نہیں ہے اِن دونوں کے درمیان فرق کرنے پر ہی ہم اِس مذکورہ سوال کا مزید جامع جواب دے سکتے ہیں ۔ حقیقی بائبلی عبادت جیسا کہ مسیحی عالم اے ۔ ڈبلیو۔ پِنک (1886-1952) کی طرف سے یوحنا کی انجیل کی تشریح میں کچھ یوں بیان کی گئی ہے :" یہ حمدو ستایش اور شکرگزاری کے ساتھ اپنے احساسات کا اظہار کرنے والا ایک نجات یافتہ اور خدا میں مشغول دل ہے۔" اسی طرح سےاے ۔ ڈبلیو ٹوزر نے کہا ہے کہ "حقیقی عبادت خدا کے ساتھ ایسی انتہائی شخصی اور شدید نوعیت کی حامل محبت رکھنا ہے کہ ہمارے ذہن میں اپنے لیے خدا کی شفقت کے تبدیل ہونے کا تصور تک پیدا نہ ہو ا۔"
لہذا خدا کی حقیقی عبادت کی پہچان اِن مندرجہ ذیل معیاری اُصولوں کے ذریعے کی جاتی ہے ۔ پہلے نمبر پر یہ اُس نجات یافتہ شخص کے دل سے نکلتی ہے جو خدا کے حضور ایمان کے وسیلہ سےراستبازٹھہرایا گیا ہو اور جو اپنے گناہوں کی معافی کے لیے صرف صرف خداوند یسوع مسیح پر ایمان رکھے ہوئے ہو۔ اگر کسی انسان کے گناہ کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا تو وہ آسمان کے خدا کی عبادت کیسے کر سکتا ہے ؟ایسی عبادت کبھی بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتی ہے جو پرانی انسانیت کے حامل اُس دل سے نکلتی ہے جہاں شیطان ، خودی اور دنیا قبضہ جمائے ہوئے ہے ( 2تیمتھیس 2 باب 26آیت؛ 1یوحنا 2باب 15آیت)۔ مسیح کے "خون سے دھوئے گئے " دل کے علاوہ کسی بھی دل سے نکلنے والی عبادت بے فائدہ ہے ۔
دوسرے نمبر پر خدا کی حقیقی عبادت ایک ایسے دل سے نکلتی ہے جو صرف اُسی کا آزرومند ہوتا ہے ۔ سامری لوگ بالکل اِسی غلطی کے مرتکب تھے کیونکہ اُنہو ں نے نہ صرف خدا کی بلکہ اور غیر معبودوں کی عبادت کرنے کی کوشش بھی کی تھی ( 2سلاطین 17باب 28-41آیات) اور اِس بات کی تصدیق خداوند یسوع کی طرف سے اُس وقت ہوتی ہے جب وہ کنوئیں پر پانی کے لیے آنے والی سامری عورت کے ساتھ حقیقی عبادت کے موضوع پر گفتگو کرتا ہے ۔"تم جسے نہیں جانتے اُس کی پرستش کرتے ہو۔ ہم جسے جانتے ہیں اُس کی پرستش کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے" ( یوحنا 4باب 22آیت)۔ یہ لوگ " آدھے دل " سے خدا کی عبادت کرتے تھے کیونکہ اُن کا کُلی پیار خدا کے لیے مختص نہیں تھا۔ حتی ٰ کہ ممکن ہے کہ سچے ایمان دار بھی اس دوسری غلطی کا شکار ہو جائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ہم سامری لوگوں کی طرح حقیقی مادی بُت نہ رکھتے ہوں ، لیکن ہماری زیادہ ترمرضی ، ہمارا وقت ، ہمارے وسائل کس میں مگن ہیں ؟ کیا یہ ہمارا روزگار ، مادی جائیداد، دولت ، صحت، حتی ٰ کہ ہمارے خاندان ہیں ؟63زبور 5آیت میں داؤد بادشاہ کی طرح ہم بھی پکار اُٹھیں کہ "میری جان گویا گُودے اور چربی سے سیر ہو گی اور میرا مُنہ مسرُور لبوں سے تیری تعرِیف کرے گا۔" نئی پیدایش کے حامل انسان کا دل خدا کے علاوہ کسی اور چیز سے آسودہ نہیں ہونا چاہیے اور اس الٰہی آسود گی کے لیے جسے بہترین خوراک سے تشبیہ دیا گئی ہے ردّعمل میں ایماندار اُن ہونٹوں کا ہدیہ پیش کرتا ہے جو خدا کی حمد و ستایش گاتے ہیں ( عبرانیوں 13باب 15آیت) ۔
تیسرے نمبر پر حقیقی عبادت خدا کے بارے میں ہمارے علم کو مسلسل طور پر بڑھاتے رہنے کی خواہش ہے ۔ آجکل کے دور میں ہم اپنی اس خواہش کو کیسے کھو چکے ہیں ! بائبل کو تو ہمیں روز پڑھنا چاہیے لیکن اُس کے علاوہ بھی ہمیں دوسری اچھی کتب کے مطالعے کے وسیلہ سے اپنے علم کو تقویت دینے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنے ذہنوں کو خدا سے متعلق باتوں سے بلاناغہ بھرنے کی ضرورت ہے ؛ خدا ہمیشہ ہمارے ذہن میں رہنا چاہیے اور ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ خُدا کی خاطر کیا جانا چاہیے ( کلسیوں 3باب 17آیت؛ 1کرنتھیوں 10باب 31آیت)۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ رومیوں 12باب 1آیت میں " عبادت/پرستش" کے لیے استعمال ہونے والے یونانی لفظ کا مطلب " خدمت " بھی ہو سکتا ہے ۔ ہمیں ہر زور خود کو زندہ قربانی کے طور پر پیش کرنا چاہیے جو پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔کلیسیا سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے خُدا کی عبادت کے ذریعے سے دُنیا پر موثر طریقے سے اثر انداز ہو، لیکن بہت دفعہ حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے۔
اگر ہم واقعی رُوح اور سچائی سے ثالوث خدا کی عبادت کرنا چاہتے ہیں تو آئیے ہم اپنے دلوں کو صاف کریں ۔ ہمارا خدا پاک ہے ؛ وہ پوری طرح الگ خدا ہے جوکبھی بھی اِس بات کو برداشت نہیں کر سکتا کہ جو احساسات ہمارے خُدا کے لیے ہونے چاہییں وہ ہم دُنیا کی دیگر مادی چیزوں کے لیے بھی رکھیں۔ بلاشبہ وہ ایک ایسا خدا ہے جو اپنی پاکیزگی کی بدولت اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم کسی اور کو بھی اُسی کی طرح مانیں۔ہم عبادت گزار مخلوق کے طور پر تخلیق کئے گئے تھے لیکن گناہ میں مبتلا ہونے کے باعث ہم معذور اور تباہ ہو گئے ہیں ۔ عبادت انسان کے لیے سب سے فطری عمل ہے لیکن جب تک ہم خدا کے پیارے بیٹے کے وسیلہ سے اُس کے ساتھ بحال نہیں ہوتے تب تک ہماری تمام عبادت ایک بے فائدہ عمل ہے ۔ یہ قربان گاہ پر " اُوپری آگ"گزرانے کی طرح ہی ہے ( احبار 10باب 1آیت)۔
English
مَیں یہ کیسے جان سکتا ہوں کہ خُدا کی درست طور پر پرستش کیسے کرنی ہے؟