سوال
خُداوند کی رُوح اور سچائی سے پرستش کرنے سے کیا مُراد ہے ؟
جواب
"روح اور سچائی" سے خُداوند کی پرستش کرنے کا تصوریوحنا 4باب 6-30آیات میں خُداوند یسوع کی کنویں پر عورت کے ساتھ گفتگو سے اخذ ہوتا ہے۔ خُداوند یسوع کے ساتھ گفتگو کے دوران عورت نے عبادت کی جگہوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہودی یروشلیم میں عبادت کرتے تھے جبکہ سامری لوگ کوہِ گرزیم پر عبادت کرتے تھے۔ خُداوند یسوع نے کچھ ہی دیر پہلے اُس پر عیاں کیا تھا کہ وہ نہ ضرف اُس کے متعدد شوہر رکھنے کے بارے میں جانتا ہے بلکہ وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہے کہ جس شخص کے ساتھ وہ حالیہ طور پر رہ رہی تھی وہ اُس کا شوہر نہیں تھا۔ وہ اس بات سے پریشان ہو گئی لہذ ا اُس نے کوشش کی کہ گفتگو کا رُخ اُس کی ذاتی زندگی سے مذہبی معاملات کی طرف مُڑ جائے ۔ خُداوند یسوع حقیقی پرستش کے بارے میں اپنی نصیحت سے باز نہ آیا اور اُس نے اِس معاملے کے مرکزی نکتے کو اُجاگر کیا : " مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچّے پرستار باپ کی پرستش رُوح اور سچّائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے اَیسے ہی پرستار ڈُھونڈتا ہے"( یوحنا 4باب 23آیت)۔
رُوح اور سچائی سے خدا کی پرستش کرنے کے بارے میں مجموعی نصیحت یہ ہے کہ خدا کی عبادت کو کسی ایک جغرافیائی محل وقوع تک محدود یا ضروری طور پر پرانے عہد نامے کی شریعت کی عارضی شرائط کے ذریعے سے منظم نہ کیا جائے ۔ مسیح کے آنے کے ساتھ نہ تو یہودیوں اور غیر قوموں کے درمیان علیحدگی کی کچھ اہمیت ہے اور نہ ہی عبادت کے حوالے سے ہیکل کی مرکزیت کی ۔ مسیح کی آمد کے ساتھ خُدا کے تمام لوگ نے مسیح کے وسیلہ سے خُدا تک مساوی رسائی حاصل کی ہے ۔ اور اب عبادت ظاہری سرگرمی نہیں بلکہ دل کا معاملہ بن گئی جوکسی تقریب کے انعقاد کی بجائے سچائی کے ماتحت ہے۔
استثنا 6باب 4-5آیات میں موسیٰ بنی اسرائیل کے سامنے بیان کرتا ہے کہ وہ اپنے خُدا سے کیسے محبت رکھیں: " سُن اَے اِسرائیلؔ! خُداوند ہمارا خُدا ایک ہی خُداوند ہے۔ تُو اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خُداوند اپنے خُدا سے مُحبّت رکھ"۔ ہمارا خُدا کی پرستش کرنا اُس کے لیے ہماری محبت کے پیشِ نظر ہے۔ جس قدر ہم اُس سے محبت رکھتے ہیں اُسی قدر ہم اُس کی عبادت کرتے ۔ چونکہ عبرانی زبان میں "طاقت" کا تصور کُلیت کی نشاندہی کرتا ہے لہذا خُداوند یسوع نے اس اظہار میں "عقل " اور "طاقت" کو بھی شامل کیا ہے (مرقس 12باب 30آیت ؛ لوقا 10باب 27 آیت)۔ خدا کی رُوح اور سچائی سے پرستش کرنے کے لیے اُس سے دل، جان، عقل اور طاقت سے محبت رکھنا شامل ہے ۔
حقیقی پرستش کو " رُوح سے " ہونا چاہیے یعنی جس میں پورا دل شامل ہو۔ جب تک خدا کے لیے حقیقی جذبہ نہیں ہے تب تک رُوح سے عبادت ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عبادت " سچائی سے " یعنی پورے شعورسے ہونی چاہیے۔ جب تک ہمیں اُس خدا کے بارے میں شعور نہیں ہے جس کی ہم عبادت کرتے ہیں تب تک سچا ئی سے عبادت ممکن نہیں ہے ۔ خدا کی عزت و تعظیم پر مبنی عبادت کے لیے دونوں عناصر ضروری ہیں۔ سچائی کے بغیر رُوح سطحی اور زیادہ جذباتی تجربے کا باعث ہوتی ہے جس کا موازنہ اُس سے بھی کسی اعلیٰ تجربے کیساتھ کیا جا سکتا ہے۔ جب جذبات کے ختم ہوتے ہی جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے تو عبادت ختم ہو جاتی ہے۔ رُوح کے بغیر سچائی ایک ناگوار اور بے حس ملاقات کا باعث ہو سکتی جو بڑی آسانی سے بے مزا ضابطہ پرستی کی طرف لے جا سکتی ہے۔ عبادت کے دونوں پہلوؤں کے بہترین امتزاج کا نتیجہ کلام ِ مقدس کی روشنی میں خُدا کی خوشی سے بھری تعظیم ہے۔ ہم جتنا زیادہ خدا کے بارے میں جانتے ہیں ہم اتنی ہی زیادہ اُس کی تعظیم کرتے ہیں۔ ہم جتنی زیادہ تعظیم کرتے ہیں ہماری عبادت اتنی ہی گہری ہوتی ہے ۔ ہماری عبادت جتنی گہری ہو تی ہے خدا اُتنا زیادہ جلال پاتا ہے ۔
عبادت میں رُوح اور سچائی کے اس ملاپ کا خلاصہ اٹھارویں صدی کے امریکی پادری اور ماہر علمِ الہیات جوناتھن ایڈورڈز نے کیا ہے۔ اُس نے کہا ہے کہ "مجھے اپنی ذمہ داری کے لحاظ سے اپنے سننے والوں کے جذبات [احساسات ] کو ممکنہ طور پر اُس حد تک بلند کرنے کے لیے سوچنا چاہیے جہاں تک مَیں کر سکتا ہوں ، بشرطیکہ وہ سچائی کے سوا کسی چیز سے متاثر نہ ہوں"۔ ایڈورڈز نے تسلیم کیا کہ سچائی اور صرف سچائی ہی جذبات کو اس طور سے متاثر کر سکتی ہے جس سے خدا کا نام جلال پاتا ہے ۔ خدا کی سچائی لامحدود قدرت رکھنے کے باعث لامحدود جذبے کے لائق ہے۔
English
خُداوند کی رُوح اور سچائی سے پرستش کرنے سے کیا مُراد ہے ؟